بلاگ
Time 07 ستمبر ، 2022

سیلاب سے تباہی: ذمہ دار کون؟

مون سون کی غیر معمولی اور طویل بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 110 اضلاع میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے عرصہ میں گیارہ سو سے زیادہ افراد کی اموات ہو چکی ہیں جب کہ ساڑھے تین کروڑ سے زائدافراد کے بے گھر ہونےکا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ساڑھے نو لاکھ مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ دیہی علاقوں میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی مارے گئے ہیں۔ اس حوالے سےصوبہ سندھ کی صورتحال سب سے زیادہ گھمبیر ہے جہاں 16اضلاع کی50 لاکھ سے زیادہ آبادی سیلاب کے باعث بے گھر یا متاثر ہوئی ہے ۔ بلوچستان کے 34اضلاع کے چار لاکھ سے زائد افراد متاثرین میں شامل ہیں جب کہ صوبہ پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ شہری بارشوں اورسیلاب کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے 33اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کا تخمینہ 50ہزار سے زیادہ کا لگایا گیاہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں سرانجام دینے والے افراد سے متاثرینِ سیلاب کو درپیش مشکلات کی جو کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں وہ انتہائی دردناک اورغم ناک ہیں۔ پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضوان نصیر بتاتے ہیں کہ ایک جگہ ریسکیو 1122 کی ٹیم نے سیلاب میں پھنسی ایک بیوہ بوڑھی عورت کو نکالا جس کے پاس کل اثاثہ ایک بکری تھی۔

ابھی ریسکیو کی کشتی خشکی سے دور تھی کہ بکری ڈر کے پانی میں گر گئی اور اسے بچانے کے لئے خاتون نے بھی پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد ریسکیو ٹیم چار گھنٹے تک انہیں ڈھونڈتی رہی لیکن نہ خاتون کا کچھ پتہ چل سکا اور نہ ہی اس کی بکری ملی۔اسی طرح ایک اور جگہ پانی میں موجود ایک کتیا کو بچانے کی کوشش کی گئی تو وہ بار بار پانی میں ڈوبے ہوئے گھر کی طرف جانے کی کوشش کرتی تھی۔ اس پر ریسکیو ٹیم نے بڑی مشکل سے مکان کے اندر جا کر دیکھا تو وہاں لکڑیوں کے اوپر اس کے چار پلےموجو د تھے جن میں سے تین مر چکے تھے ۔

 اس کے باوجود جب تک ریسکیو ٹیم نے تمام بچے اٹھا کر کشتی میں نہیں رکھے ان کی ماں کشتی میں سوار نہیں ہوئی۔ ایک اور واقعہ میں جب سیلاب میں ڈوبے گھر سے ایک خاندان کو بچا کر کشتی میں سوار کیا گیا تو ان کی عورتوں کی آہ وزاری سے ہر آنکھ بھیگ گئی۔ وہ سیلابی ریلے میں لاپتہ ہوجانے والے اپنے دو بچوں کے بغیر وہاں سے کہیں اور جانا نہیں چاہتے تھے لیکن انہیں بہ مشکل عارضی خیمہ بستی میں منتقل کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور جگہ سے جب ایک شخص کو اس کی دو بیٹیوں کے ساتھ ریسکیو کیا گیا تو پتہ چلا کہ سیلاب کے دوران قبل از وقت زچگی کے باعث اس کی اہلیہ اور بچہ طبی امداد نہ ملنے کے باعث وفات پا چکے تھے۔ بعدازاں وہ شخص خود بھی صدمے کے باعث کشتی میں ہی حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گیا اوراب اس کی دو یتیم بیٹیاں ریسکیو1122 کے پاس ہیں۔

یہ اس انسانی المیے سے جڑے چند واقعات ہیں جو کسی نہ کسی طرح ہم تک پہنچ گئے ہیں جب کہ ہزاروں ، لاکھوں متاثرین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بیان کرنے والا بھی کوئی موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں بطور قوم جہاں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں کی مدد کے لئے ہر ممکن وسائل مہیا کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ اس سیلاب کے دوران برتی جانے والی انتظامی غفلت کا محاسبہ کر کے گورننس کی خامیوں پر قابو پایا جائے۔ یہ اقدام اس لئے بھی زیادہ ضروری ہے کہ محکمۂ موسمیات کی جانب سے مون سون کے دوران زیادہ شدید اور طویل بارشوں کی پیش گوئی پہلے ہی کر دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقداما ت نہیں کئے گئے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے 2010ء میں بھی پاکستان کو بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب کی وجہ سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس سیلاب میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 20لاکھ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ اس سیلاب کی وجہ سے ملک کے مجموعی قابلِ کاشت رقبے میں سے 20 فیصد پر موجود فصلیں تباہ ہوئیں اور 11لاکھ 20 ہزار 978مکانوں کو نقصان پہنچا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 1710ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جب کہ تعمیرِ نو کی سرگرمیوں پر 1156ارب روپے کے اخراجات آئے تھے۔

 دوسری طرف پاکستان میں گزشتہ 75 سال کے دوران پانی کی فی کس سالانہ فراہمی 5000 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 1000کیوبک میٹر پر آ چکی ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق، پانی کی قلت پر اگرقابو نہ پایا گیا تو2025ء تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ ’’ارسا‘‘ کے مطابق پاکستان کے دریائوں میں ہر سال گلیشیئر پگھلنے، برفباری اور بارشوں سے 134 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ہمارے پاس اس دستیاب پانی کا محض 10فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ شرح 40فیصد سے زیادہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کے پاس صرف 30دن کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد موجود ہے جو ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے خطرے کی بات ہے۔ یہ حقائق اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ اب بھی اگرہم نے بطور قوم ذمہ دار ی کا ثبوت دیتے ہوئے سیلاب سے آنے والی تباہی کے ذمہ داروں کا محاسبہ نہ کیا تو خدانخواستہ چند سال بعد ہمیں اس سے بھی بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔