بلاگ
Time 09 ستمبر ، 2022

کمزور پڑتی امریکی برتری

دوسری عالمی جنگ امریکی تسلط کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ یہ غلبہ مغربی سامراج کی توسیع تھا۔1945 سے نوآبادیاتی دور کا بتدریج خاتمہ شروع ہوا۔ یورپ نے امریکی تسلط کو خطرے کی بجائے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ امریکی اپنے حجم، جغرافیائی محل وقوع اور اقتصادی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو سپر پاورثابت کرنے میں کامیاب رہے۔

 نوم چومسکی کے الفاظ میں، امریکی ''گاڈ فادر'' بن گئے۔ یہ ''گاڈ فادر'' مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا قائد بن گیا۔امریکہ اپنی من چاہی خارجہ پالیسی ڈکٹیٹ کرنے لگا۔1960سے 1980تک یہ سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ سوویت یونین کی موجودگی نے بہت سے علاقوں میں امریکہ کو ٹکر دی ۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکی طاقت کی کوئی حدنہ رہی۔یہ پوری دنیا کا گاڈ فادر بن گیا۔

 واشنگٹن کے ساتھ کسی بھی اختلاف کا مطلب اتحادی ممالک سے کنارہ کشی اور معاشی و اقتصادی مکمل تباہی ہوتا۔ گاڈ فادر اب روبہ زوال ہے، امریکی خارجہ پالیسی نے عالمی امن داؤ پر لگا دیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے حامل دو ممالک، بڑے پیمانے پر فوجی اور اقتصادی تصادم کے خدشے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ کمزور پڑتی امریکی طاقت اور تسلط کے دوران کیا ایک بہتر کل کی توقع کی جا سکتی ہے؟

یورپ اور برطانیہ غیر اعلانیہ طور پر امریکی تسلط کے لئے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ پر سخت گرفت رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ نے کئی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خلاف ورزیاں کیں ، مغربی طاقتوں اور برطانیہ نے معاشی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکہ کا ساتھ دیا۔ امریکہ نے ایشیا اور افریقہ کو تختۂ مشق بنائے رکھا ۔ اس نے اپنی اقتصادی اور فوجی پالیسیوں کے ذریعے ایشیا اور افریقہ میں مداخلت کر کے واشنگٹن کی مرضی کے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کو ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

 دوسری جنگِ عظیم کے بعد تعمیر نو کی ضروریات کی وجہ سے افریقہ کو استحصال کے لئے یورپ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ، جب کہ ایشیا اور خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا کو روس کے خلاف آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چین اس تمام عرصہ میں غیر جانبدار رہا۔ چین کی تاریخ اور حجم کا امریکہ نے غلط اندازہ لگایا ،محض چند دہائیوں میں چین دنیا کے گاڈ فادر کو چیلنج کر رہا ہے۔چین وہ کر رہا ہے جو کوئی دوسری قوم نہیں کر سکی۔چین آزاد منڈی میں امریکہ کو شکست دے کر امن کے قیام کے ساتھ اقتصادی ترقی کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہے جودنیا بھر میں امریکی مفادات کو چیلنج کر رہا ہے۔

امریکہ بات چیت، سفارت کاری اور مذاکرات کاعادی نہیں ہے۔تاریخ میں جھانکیں تو واضح طور پریہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جس نے امریکی خواہشات کے خلاف کام کیا امریکہ نے اس کا کیا حشر کیا ۔ صدام حسین امریکہ کا سب سے قابلِ اعتماد اتحادی تھا، اچانک صدر بش نے اسے دشمن قراردے دیا۔ صدام کی ڈیل کی کوششوں کو مسترد کرکے عراق پر حملہ کر دیا گیا ۔ سفارت کاری کی بجائے فوجی کارروائیوں کے ذریعے وحشیانہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عراق کو کھنڈر بنا دیا گیا ۔اسی طرح، قذافی کے معاملے میں،بے دریغ پیسہ لٹا کر کرنل قذافی کی حکومت گرانے کی سازش کی گئی ۔ کرنل قذافی کی موت کے بعد ملک انتشار کا شکار ہو گیا۔ اوباما یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ جوہری اسلحے کی تخفیف کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا جسے ریپبلکن رہنما ڈونلڈ ٹرمپ نے منسوخ کر دیا ۔ یورپی باشندے اگرچہ اس فیصلے سے خوفزدہ ہوئے، لیکن فرمانبرداری کے تقاضو ں کے تحت امریکہ بہادر کے سامنے چپ رہنے میں عافیت جانی۔ اسرائیل کے معاملے میں جہاں مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے مذاکراتک کئے جاتے رہے وہیں امریکہ نے فلسطین میں اسرائیل کی جارحیت کی مکمل حمایت کی اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیارموجود ہیں ، یہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے پروگرام کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

دنیا کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ چین امریکی تسلط کا متبادل ہے۔ گاڈ فادر اپنی پرانی چالوں پر قائم ہے۔ چینی اس کھیل میں امریکیوں کو ہرا رہے ہیں۔ آزاد منڈی چین کے حق میں ہے۔ چین علاقائی روابط،باہمی ترقی، سرمایہ کاری اور خیر سگالی کے ذریعے ترقی کر رہا ہے۔ اس کا کسی ملک پر حملہ کرنے یا امریکیوں کے ساتھ فوجی تنازع میں ملوث ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ امریکہ کو معاشی طور پر شکست ہوئی ہے۔ اس کا دنیا کو چلانے کا طریقہ غیر موثر، متشدد اور یکطرفہ ہے۔ یہ غیر موثر طریقۂ کار طویل مدت تک نہیں چل سکتا۔نئے بیانیے فروغ پا رہے ہیں، لیکن مسئلہ اسی کہاوت میں پنہاں ہے کہ ’’پرانے گاڈ فادر نئی چالیں نہیں سیکھیں گے‘‘۔

 یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ تنازعہ کو ہوا دے رہا ہے۔ حال ہی میں، تائیوان میں پابندیوں کا نفاذ اور تنازعہ اس بات کا اشارہ ہے کہ تصادم ناگزیرہو چکا ہے۔ اختلاف واضح نظر آ رہا ہے، چین اور اس کے اتحادی امریکی خواہشات کو ماننے کو تیار نہیں۔ اگر بات فوجی یا سرد جنگ کی ہو تو چین معاشی اور عسکری طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ٹف ٹائم دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ تنازعات ہی آگے بڑھانےکا واحد راستہ ہے یا زوال پذیر سپر پاور مذاکرات، اقتدار کی تقسیم اور باہمی احترام کو موقع دینے پر آمادہ ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔