بلاگ
Time 09 ستمبر ، 2022

بے بس عوام اور سیاسی تماشہ

ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سیلاب زدگان بے گھر اور بے در ہیں۔سینکڑوں انسان جانوں سے گئے۔ ہزاروں پالتو جانور سیلاب کی نذر ہوئے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں اورباغات کا نام ونشان نہیں رہا ۔ لاکھوں کی تعداد میں گھروں کے مکین سڑکوں پر پڑائو ڈالے ہوئے ہیں۔

افواجِ پاکستان، حکومت اور مختلف تنظیمیں جو ہر موقع پر کارِخیر میں پیش پیش ہوتی ہیں، سیلاب متاثرین کی مدد اور دلجوئی میں مصروف ہیں۔ تاہم متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ تمام کوششیں ابھی تک آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتی ہیں۔ سیلاب زدگان بیک وقت کئی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ کھانے کا ہے۔

ہزاروں متاثرین بھوک اور خوراک کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ پینے کیلئے صاف پانی نہیں ہے اس لئے وہ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے پیٹ اور دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مچھروں کی بہتات اور گرمی کی شدت کی وجہ سے جلدی امراض پھوٹ پڑےہیں۔ کئی بچے دودھ اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔

ان سیلاب متاثرین میں 95 فیصد غریب اور دیہات سے تعلق رکھنے والے کسان ہیں۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ان کا کوئی اور ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔ ان کے گھر اور زمینیں سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نہ تو وہ واپس جانے کے قابل ہیں نہ ہی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے خوراک اور پینے کے صاف پانی کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، مریض، عورتیں اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں جن کے پاس نہ کھانے پینے کو کچھ ہے اورنہ ہی ادویات اور علاج معالجے کا بندوبست ہے۔

بچوں کیلئے دودھ بھی دستیاب نہیں۔ متعدد متاثرہ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری رقوم اور امدادی اشیا متاثرین کو نہیں مل رہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے متاثرین کی طرح یہاں بھی سرکار کی طرف سے جاری رقوم اور امدادی اشیا سیلاب متاثرین کے بجائے چند ’’ خاص ‘‘ لوگ ہی لے جائیں گے یا بازاروں میں فروخت ہوں گی اور نقد رقوم بھی آپس میں بانٹی جائیں گی۔

تازہ ترین مثالوں میں ایک مثال سندھ کے علاقہ ٹھٹھہ کی ہے جہاں وفاقی حکومت کی طرف سے فی خاندان 25 ہزار روپے کی فوری اور نقد امداد کی تقسیم میں گھپلا سامنے آیا، متاثرین میں 25 کے بجائے 23 ہزار روپے کی تقسیم کا انکشاف ہوا جس پر بعض سرکاری اہلکاروں کو معطل کیاگیا۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ مکانات کی دوبارہ تعمیر ومرمت اور فصلوں کے نقصانات کی مد میں نقد رقوم کی تقسیم کا آئے گا، جس میں بڑے پیمانے پر خورد برد اور رشوت ستانی کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ اس میں بھی ’’ خاص ‘‘ لوگوں کے ہی زیادہ مستفید ہونے کا اندیشہ ہے۔

حکومت اگرسیلاب متاثرین میں امدادی رقوم کی تقسیم منصفانہ طریقے سے کرنا چاہتی ہے تو یہ کام پاک فوج کے سپرد کیا جائے ۔ متاثرین میں اگر امدادی رقوم کی تقسیم سرکاری اہلکاروں اور سیاستدانوں کے سپرد کی گئی تو پھر’’ اندھا بانٹے ریوڑیاں اور اپنوں کو دے بار بار ‘‘ والا معاملہ ہوگا اور حقدار نہ صرف محروم رہ جائیں گے بلکہ اس کے اثرات طویل عرصے تک ملکی پیدا وار پر بھی محسوس کئے جاتے رہیں گے۔دوسری طرف آدھے سے زیادہ ملک سیلاب سے متاثر ہوا ہے، ہر طرف ہر قسم کی تباہی پھیلی ہوئی ہے۔

مہنگائی کا نہ رُکنے والاطوفان ہے۔ درمیانے طبقے اور غریبوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے لیکن عمران خان جلسہ جلسہ اور سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اس مشکل ترین وقت اور ناگفتہ بہ حالات میں بھی ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈی جی خان میں سیلاب متاثرین کے ساتھ ملاقاتوں کے نام پر ڈرامہ کیاگیا۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جس کی اعلیٰ قیادت اور شخصیات کیلئے نامناسب الفاظ استعمال نہ کئے گئے ہوں ۔

توہین آمیز بیانات اور دھمکی آمیز گفتگو نہ کی گئی ہو۔ ان کو نہ سیلاب متاثرین کی فکر ہے نہ اداروں کے احترام کا احساس لیکن اس تمام صورتحال پر حکومت کی پر اسرار خاموشی سے نہ صرف دال میں کچھ کالا لگتا ہے بلکہ ساری دال ہی کالی لگتی ہے۔ نہ تو عمران خان نے اب تک اپنے بیانات پر معافی مانگی ہے نہ ہی وہ باز آتے ہیں، الٹا اپنے بیانات اور الفاظ کے بارے میں عجیب وغریب منطق اور توجیہات پیش کرتے ہیں۔حالانکہ گزشتہ دنوں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں ان کے بیان کی خود ان کی پارٹی نے حمایت نہیں کی۔ صرف اسد عمر اور فواد چوہدری نے ان کے بیان کے دفاع میں ان کی ہی طرح تاویلیں پیش کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

بعض ’’ دانشور‘‘ حضرات ملک میں جلد انتخابات کے بارے میں پیش گوئیاں اور مختلف خاکے پیش کرتے ہیں۔ کچھ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں، حکومت اور عمران خان کی پس پردہ ملاقاتوں یا معاملات طے کرنے اور اس میں اداروں کی سہولت کاری کے ’’انکشافات‘‘ کرتے ہیں۔ یہ دراصل ملکی صورتحال، سیلاب زدگان اور عمران خان کےخلاف جاری مقدمات سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔

ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے مقاصد جوبھی ہیں لیکن ان کو سوچنا چاہئے کہ کیا موجودہ صورتحال میں جبکہ خزانہ خالی اور سیلاب سے تباہی پھیلی ہوئی ہے، الیکشن ممکن ہے؟ کیا ملکی خزانہ اس وقت ایسےبوجھ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیا سیلاب زدگان کو یوں ہی بے آسرا چھوڑ کر الیکشن کا سرکس لگانا جائز ہے۔ یقیناً ہرگز نہیں لیکن بالفرض اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ حکومتی جماعتوں کی سیاسی موت اور سوفیصد عمران خان کی کامیابی ہوگی۔ ملک اور عوام جائے بھاڑ میں پھر حکومتی جماعتوں کو سیاست سے تو بہ ہی کرنی چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔