سیلاب اور معیشت

ایک طرف ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، دوسری طرف سیاست کی گرما گرمی اور اہم فیصلوں کا قریب آتا وقت ....جس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

 سیلاب سے چاروں صوبوں میں کروڑوں افراد متاثر ہوئے، ان کے گھر تباہ اور فصلیں برباد ہوگئیں۔وطنِ عزیز کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کے ہر شہر اور قصبے سے لوگوں نے متاثرینِ سیلاب کی دل کھول کر مدد کی۔ لاہور میں شہریوں ، تاجروں، فلاحی تنظیموں اور دیگر اداروں کی جانب سے امدادی کیمپ لگائے گئے اور سینکڑوں امدادی ٹرک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچائے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

 اسکولوں کالجوں میں زیرِتعلیم طالب علم اپنے تعلیمی اداروں یا سڑکوں پر فنڈز جمع کر رہے ہیں۔ جہلم کے ایک سرکاری گرلز کالج کی طالبات نے والدین کی محدود آمدنی کے باوجود نقد رقوم اور امدادی اشیاءسیلاب سے متاثرہ لوگوں کو بھجوائیں ۔ نوجوان نسل کی طرف سے مصیبت میں گھرے لاچار لوگوں کیلئے مدد کا جذبہ قابل ستائش ہے۔

 روٹری اور دوسری تنظیموں کے تعاون سے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس قائم کئے گئے ہیں جہاں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں اور ادویات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ لاہور کی معروف معالج ڈاکٹر شاہینہ آصف اپنی ٹیم کے ہمراہ امدادی کیمپوں میں خواتین اور بچوں کی دیکھ بھال اور علاج کر رہی ہیں ،ان کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف متاثرہ علاقوں میں خدمتِ خلق میں مصروف ہے۔

بیرونی ممالک اور اوورسیز پاکستانیوں نے بھی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے تیس ملین ڈالر کی فوری امداد کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ یوایس کانگریس کا تین رکنی وفد ہنگامی دورے پر پاکستان پہنچا جس میں پاکستان کا کس کی سربراہ کانگریس وومین شیلا جیکسن، کانگریس مین ال گرین اور کانگریس مین ٹام سوزی شامل تھے جنہوں نے صدر پاکستان، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا اور مزید مدد کا وعدہ کیا۔ 

ہوسٹن سے طاہر جاوید، تنویر احمد، طاہر بھٹی اور ریحان صدیقی جب کہ نیویارک سے ڈاکٹر اعجاز احمد اور اٹارنی شاہد علی اس تین رُکنی وفد کے ہمراہ پاکستان آئے اور ملاقاتوں میں شریک ہوئے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان کی قدرے تاخیر سے شروع کی گئی فنڈ ریزنگ اپیل پر بیرون و اندرون ملک سے بھاری رقوم عطیہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ہوسٹن امریکہ سے ایک متمول امریکن پاکستانی شخصیت مڈلینڈ انرجی کے مالک جاوید انور نے ایک ملین ڈالر کی خطیر رقم عمران خان کی اپیل پر سیلاب فنڈ میں دی ،اس سے قبل جاوید انور احساس پروگرام کیلئے بھی دو ملین ڈالر دے چکے ہیں، امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم’’ اپنا ‘‘کی طرف سے بھی اب تک پانچ لاکھ ڈالر سیلاب متاثرین کیلئے اکٹھے کئے جاچکے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم ’’اپنا ‘‘نے ایک گھنٹے میں جمع کی ہے ۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے اور عالمی ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ خطے اور تباہ حال لوگوں کیلئے دنیا بھر ے امداد کی اپیل کی ۔ کورونا کی عالمگیر وبا کے خاتمے کے بعد عالمی معیشتیں اور ترقی یافتہ ملک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑےنہیں ہو پائے ہیں اور پھر یوکرین کی جنگ اور توانائی بحران کی وجہ سے وہ ممالک اپنے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کی زیادہ امداد کرنے سے قاصر ہیں۔

 آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی گئی شرائط اور قرضے میں دی گئی رقوم کی کڑی نگرانی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بیرونی ممالک اور ڈونر ادارے ہماری کارکردگی سے مطمئن نہیں،لہٰذا ہمیں بیرونی ممالک یا اداروں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔

ان حالات میں سیلاب سے تباہ شدہ معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ہم ان حالات میں بھی ذاتی یا گروہی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے اقتدار کے حصول کے لئےآپس میں برسرپیکار ہیں۔ بیرونی قرضوں کی بدولت ہمارا حکومتی ڈھانچہ کھڑا ہے اور سرکار چاہے وفاقی ہو یا صوبائی اپنے خرچے کم کرنے پر تیار نہیں۔ 

وزرااور افسروں کے شاندار دفاتر، عالیشان بنگلے، سرکاری گاڑیوں کی قطاریں، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر دورے اور شاہانہ اندازسے کسی طور نہیں لگتا کہ یہ سب کچھ بیرونی قرضوں اور امداد کی بھیک سے حاصل کردہ ہے اور ہم قرض کی قسطیں واپس کرنے کے لئےمزید قرض لیتے ہیں۔ گندم، دالیں ، سبزیاں، پام آئل، تیل و ڈیزل، گیس، دوائیاں، بیج، کھاد اور کپاس بیرونی ممالک سے بیرونی قرضوں سے درآمد کرنے والے بیرونی غلامی سے نجات کی بات کرتے ہیں۔تعجب ہے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔