بلاگ
Time 16 ستمبر ، 2022

احساس اور ضمیر کہاں؟

بلوچستان، کے پی اور جنوبی پنجاب میں چند علاقوں کو چھوڑ دیں باقی جہاں دیکھیں پانی اور تباہی نظر آئے گی۔ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ مکانات اور فصلیں سب کچھ تو سیلاب بہا کر لے گیا اور باقی بچ جانے والے گھر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں ایسے مناظر اور دردناک داستانیں ہیں جو نہ دیکھی جاسکتی ہیں نہ سنائی جاسکتی ہیں۔

 جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو سیلاب سے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے وہ بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور وہ محفوظ رہے ہیں، یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ معاشی طور پر پاکستان کو اس سیلاب سے جو نقصان پہنچا ہے اس سے ہر پاکستانی متاثر ہوگا۔ آنے والے مہینوں میں شدید غذائی قلت کا خدشہ ہے۔ مہنگائی میں مزید اضافے کو روکنا مشکل ہوگا۔

 سیلاب متاثرین کا کیا ہوگا۔ کیا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائیگا۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ اگر سیلاب متاثرین کی آبادکاری کو نظر انداز کیا گیا یا ان کیلئے مختص فنڈز اور آنے والی امداد میں خوردبرد کی گئی تو اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ احساس اور ضمیر سے محروم ایسے بھی لوگ ہیں جو سیلاب متاثرین کے نام پر فنڈز اکٹھے کرتے اور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ متعلقہ حکومت کو اس پر بھی فوری اور خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایسے سیاستدان بھی ہیں جو اس مشکل وقت میں متاثرین کی مدد اور دادرسی کے بجائے ذاتی و سیاسی مفادات کو مقدم سمجھتے ہیں۔ ان کو سڑکوں پر کھلے آسمان تلے پڑے بے یارومددگار متاثرین نظر آتے ہیں نہ ان سے کوئی ہمدردی ہے۔ ایسے بے حس اوربے ضمیروں کو وہ بچے بھی نظر نہیں آتے جو دودھ اور غذائی قلت کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں میں مبتلا دوا کے لئے تڑپ رہے ہیں اور روزانہ ان میں سے کئی بچے موت کی آغوش میںچلے جاتے ہیں۔

 کیا ان لوگوں میں ذرہ بھر انسانیت بھی نہیں؟ کیا وہ دنیا کے عارضی اقتدار کی خاطر آخرت کا سودا کرچکے ہیں؟ وفاقی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی حکومتیں تو اپنی کوششیں کررہی ہیں لیکن اگر پاک فوج ان متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کیلئے فوراً نہ پہنچتی تو یقین کریں کہ اموات کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اسی طرح اگر پاک فوج کے جوان اور آفیسرز امدادی سامان ان متاثرین تک پہنچانے کا فریضہ ادا نہ کرتے تو پتہ نہیں کہ ان کا کیا حال ہوتا۔

 مولانا فضل الرحمان کی تنظیم انصارالاسلام اور جماعت اسلامی کی الخدمت نے محدود وسائل کے باوجود جس طرح لوگوں کو سیلاب سے نکا ل کر محفوظ مقامات پر پہنچایا اور پاک فوج کے شانہ بشانہ سیلاب زدگان کی مدد کی وہ قابل تحسین ہے۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی تنظیم انصار الاسلام وہ ہے جس کے کارکنوں کو سابقہ حکومت کے دور میں پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد سے نہ صرف گرفتار کیا گیا تھا بلکہ ان پر پر سخت تشدد بھی کیا گیا تھا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی جیسے کہ وہ دہشت گرد ہیں۔

اس وقت ایک طرف ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی زندگی مشکل تر بنائی ہوئی ہے۔ سیلاب نے ہر طرف سے متعلقہ علاقوں کے رہنے والوں کو تباہ اور ان کی زرعی زمینوں اور گھروں کو اجاڑ کے رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو ایک اور شدیدجھٹکا پہنچا ہےجبکہ غذائی قلت و مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا نہ ہی یہ خارج از امکان ہے تو دوسری طرف تاک لگائے دشمن نے اپنی ناپاک کارروائیاں شروع کردی ہیں۔

 اس وقت صوبہ کے پی دہشت گردوں کا نشانہ ہے۔ سوات سے لے کر وزیرستان تک مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے جوانوں اورآفیسرز پر حملے ہورہے ہیں۔ اب تک دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے کئی جوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کر کے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوسکتے ہیں لیکن ان کو ناکام بنانے کیلئے اہم ترین خفیہ ادارے بھی جاگ رہے ہیں اور مسلح افواج بھی ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں قوم کو پاک افواج سے تعاون کرنا چاہئے۔ افواج پاکستان کے ہوتے ہوئے دشمن کبھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

اس تمام صورتحال میں وہ لوگ کون ہیں جو جلد الیکشن کرانے کیلئے بیتاب ہیں اور دوسری طرف ملکی اداروں کو کمزور کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سیلاب زدگان کا، نہ ملکی معیشت کا اور نہ ہی ملکی دفاعی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کا کوئی احساس ہے نہ ہی ان کا ضمیر ان کو روکتا ہے۔ کیا ایسا محسوس نہیںہوتا کہ ایسے لوگ ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔

 آرمی چیف کی تعیناتی جیسے غیر متنازعہ اور طے شدہ طریقہ کار تک کو متنازعہ بنانے کی کوششیں نہایت قابل مذمت ہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود یا ان کے اردگرد کے لوگ ان کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی وزیراعظم ہیں۔ دوسرا یہ کہ پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور وہ قائداعظم کے بعد سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ تیسرا یہ کہ وہ دھمکیوں، بدتہذیبی اور بڑھکوں سے نہ صرف حکومت بلکہ اداروں کو بھی مغلوب کرسکتے ہیں۔ 

عمران خان نے امریکی سازش، پھر امریکی غلامی سے نجات کے بیانیہ پر چند بے خبر اور ناسمجھ نوجوانوں کو ساتھ لگایا۔ میر جعفر و میر صادق اور مسٹر ایکس، وائی سے نفرت پھیلانے کی کوششیں کی لیکن بری طرح ناکام ہونے کے بعد نہ جھکنے کے دعویدار نے یوٹرن لے لیا۔ عمران خان آنے والے وقت کی فکر کریں۔ جس میں نہ کوئی سیاسی اے رہےگا اور نہ بی اور نہ سی ،بلکہ حقیقی تبدیلی آئے گی بس تھوڑا نتظار ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔