پلاسٹک کے ننھے ذرات جسم کے کن حصوں کو متاثر کرسکتے ہیں؟

ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فوٹو بشکریہ David Kelly
ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فوٹو بشکریہ David Kelly

اس وقت کیا ہوسکتا ہے جب لوگ لاعلمی میں پلاسٹک کے نادیدہ ذرات کو کھانے یا سانس کے ذریعے جسم کا حصہ بنالیں؟

اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات جسم کے اندر جانے سے کن اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے مگر اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے۔

جریدے اے سی ایس انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات جگر اور پھیپھڑوں کے خلیات میں داخل ہوکر ان کے افعال کو متاثر کرسکتے ہیں ، جس سے صحت کو منفی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں پلاسٹک سے بچنا ممکن نہیں، کیونکہ ہمارے اردگرد موجود بیشتر مصنوعات پلاسٹک سے بنتی ہیں یا ان پر پلاسٹک پیکنگ ہوتی ہے۔

ان مصنوعات سے پلاسٹک کے بہت چھوٹے ذرات کا اخراج ہوتا ہے جو حادثاتی طور پر جسم کے اندر جاسکتے ہیں۔

اب تک پلاسٹک کے ان ننھے ذرات کے انسانی صحت پر مرتب اثرات کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔

مگر ایک حالیہ تحقیق میں ماہرین نے 100 نانو میٹر حجم سے چھوٹے پلاسٹک کے ذرات لیبارٹری میں جانوروں کے خون اور اعضا میں داخل کیے، جس سے ورم اور اعصابی تبدیلیوں کا عمل بڑھ گیا۔

اسی کو دیکھتے ہوئے محققین نے انسانی پھیپھڑوں اور جگر میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات کو جاننے کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کے لیے لیبارٹری میں انسانی جگر اور پھیپھڑوں کے خلیات کو تیار کیا گیا اور ان میں 80 نانو میٹر حجم کے پلاسٹک کے ذرات کو داخل کیا گیا۔

2 دن بعد مائیکرو اسکوپی تصاویر سے ثابت ہوا کہ پلاسٹک کے ذرات خلیات کو ختم کیے بغیر ان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اس بارے میں مزید جاننے کے لیے محققین نے ان خلیات کے مائی ٹو کانڈریا سے خارج مرکبات کی جانچ پڑتال کی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جگر اور پھیپھڑوں کے خلیات جتنے زیادہ پلاسٹک کے ذرات کا سامنا کرتے ہیں، ان کے افعال متاثر ہونے کا خطرہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔

کچھ کیسز میں تو مائی ٹو کانڈریا کو غیر فعال ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا اور محقین نے بتایا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات جگر اور پھیپھڑوں جیسے اہم اعضا کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

مزید خبریں :