بلاگ
Time 17 ستمبر ، 2022

سلیکشن، الیکشن اور انقلاب

اس حقیقت کا سامنا کئے بغیر چارہ نہیں کہ موجودہ وفاقی کابینہ کے پچاس فیصد اراکین قانون کی عدالتوں کو بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں۔ فی الحال اُنہوں نے کسی نہ کسی بہانے سے عارضی طو رپر جان بخشی کرا رکھی ہے ۔ جس روز اقتدار سنبھالا، شہباز شریف اور اُن کے بیٹے پر فرد جرم عائد کی جانی تھی۔ اس کے بعد ان کے کیس پر عارضی طور پر کارروائی روک دی گئی ۔ اب غالباً جب تک موجودہ ٹولہ اقتدار میں ہے ، سماعت کی نوبت نہیں آئے گی ۔

بدعنوانی کے مقدمات سے مستقل جان چھڑانے کیلئے نیب کے قوانین اور ضابطوں میں کئی طرح کی من چاہی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیادہ تر زیر التوا کیسز کو واپس نیب کے پاس بھیجا جارہا ہے کیونکہ اب عدالتیں ان کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتیں۔ اگر اس ٹولے کو مزید چند ماہ اقتدارمیں رہنے دیا گیاتو وہ اپنے تمام تر گناہوں سے پاک صاف ہوکر یہاں سے نکلیں گی ۔

اگرچہ اس قبیل کے واقعات پاکستان کی گورننس کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں ، لیکن اس مرتبہ پریشان کن بات اداروں کی کھلی اورہمہ گیر شراکت داری ہے جس نے عملی طو رپر ایسےعناصر کو مسندِاقتدار پر لابٹھایا ۔ اس کارروائی کے تباہ کن اثرات کے باوجود سرپرستی کا کھیل جاری ہے ،حالانکہ اس کے مزید فتنہ پرور مضمرات ہمیں آنکھیں پھاڑے گھور رہے ہیں۔ اس تباہی پر ایسی بے حسی کے مظاہرے پر عقل حیران ہے۔

اس مبینہ جرم زدہ ٹولے کا اقتدار تباہی کے کئی پہلو لئےہوئے ہے ۔ متوقع معاشی بحالی ایک ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوچکی ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔ اگرچہ یہ بندوبست تو شروع سے ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مجرمانہ طرزِ عمل اس کے اقتدار میں رہنے کا تھوڑا بہت جواز بھی تحلیل کرتا جارہا ہے ۔ اب جب کہ آٹھ نئے معاونین خصوصی برائے وزیر اعظم مقررکئے جاچکے ، جو کہ بذات خود ایک شرمناک ریکارڈ ہے ، دکھائی یہی دیتا ہےکہ جلد ہی کولیشن کے ہر رکن کی گاڑی پر وزارتی جھنڈا لہرا رہا ہوگا۔ لیکن پھر غیر ملکی آقائوں کی ایما پر جرم زدہ عناصر کو ایک گروہ کی صورت اکٹھا کرکے اقتدار پر بٹھانے کا انجام اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ سازش کے نتیجے میں نکال باہر کئے جانے والے شخص کو فقید المثال مقبولیت حاصل ہوئی ہے اوراس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چند گھنٹوں کے نوٹس پر ملک بھر میں لاکھوں افراد والہانہ طور پر ان کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ وہ جانتے تھے کہ یہی لیڈر اُنھیں وہ حقیقی آزادی دلاسکتا ہے جو اُنھیں اپنے حقیقی فیصلے کرنے کا موقع دے گی ۔ وہ فیصلے جو اُن کے حق میں بہتر ہوں گے۔ درحقیقت یہی وہ وجہ تھی جس نے سازش اور اس کے تباہ کن نتائج کو جنم دیا جس سے ملک اب تک دوچار ہے ۔ تباہی کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ موجودہ خرابی کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک ایسی حکومت قائم نہیں کی جاتی جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے اور وہ قانونی اور آئینی ساکھ رکھتی ہو۔

لیکن یہ انتخابات ابھی تک افق پر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ جب سے عمران خان کی حکومت کو ہٹایا گیاہے، مجرمانہ تسلط تنزلی کی نئی گہرائیوں کو چھو رہا ہے۔ انھوں نے اپنی تمام سیاسی ساکھ کھو دی ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں شکست کا منہ دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف وہ مختلف حلقوں کے ضمنی انتخابات کو کھوکھلی وجوہات بتا کر ملتوی کرتے ہیں تو دوسری طرف عام انتخابات کا اعلان کرنے سے بھی خائف ہیں جس کا مطالبہ خان صاحب کر رہے ہیں تاکہ ایسی نئی حکومت قائم ہوجسے قانونی جواز اور ووٹروں کا اعتماد حاصل ہو۔

سماج کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافے اور فاشسٹ ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر انھیں سیاسی میدان سے بے دخل کرنے میں واضح ناکامی کے بعد حکومت کے پاس کون سے آپشن رہ گئے ہیں؟ مزید وقت ضائع کئے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائیں، یا حکومت کسی انقلاب کی متمنی ہے؟ظاہر ہے کہ ترجیحی آپشن انتخابات ہونے چاہئیں۔ لیکن جس انداز سے موجودہ ٹولہ اور اس کے سہولت کارخان کا چیلنج ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے انقلاب کا نقارہ بجنے کا امکان واضح ہوتا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ زور پکڑنے کے بعد یہ کیسے آگے بڑھتا ہے اور کیا یہ پرامن ہوگا، یہ پریشان کن سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اس موڑ پر ملک میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ،جس نے عام شہریوں کی زندگیوں کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے، تشدد خارج از امکان نہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ ابھرتی ہوئی حرکیات کا حصہ بن کر ملک کی بقاکیلئے سنگین نتائج کا باعث نہ بن جائے۔

ایک سیاسی رہنما کے طورپرعمران خان اس سے زیادہ عوامی طاقت رکھتے ہیں جتنی ان سے پہلے کسی کے پاس تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا قد بڑھتا جاتا ہے۔ ہر چڑھتا سورج اقتدار پر بٹھائے گئے ٹولے کی مزید رسوائی کا گواہ بنتا ہے۔ وہ اس وقت ناقابلِ برداشت اذیت کا شکار ہیں۔ ایک سوال جو میں سہولت کاروں سے پوچھنا چاہتا ہوں:آپ کو اس تجربے سے کیا حاصل ہوا؟ پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟ عوام کو کیا حاصل ہوا؟

کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا، لیکن ملک اس کے ہولناک نتائج بھگت رہا ہے۔ حتمی بات یہ ہے کہ عوام ہی فتح کا آخری باب لکھیں گے۔ اپنے لیڈر چننا اُن کا حق ہے اور یہ حق اُنھیں نہیں دیا جاسکتا جو سازشوں اور بدعنوانی کی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔