کیا آپ نے بھی امریکی فوج کے ان اسٹیلتھ طیاروں کے بارے میں نہیں سنا؟

ضروری نہیں کہ اسٹیلتھ لڑاکا اور بمبار طیاروں کا ہر پروگرام کامیاب رہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہر اسٹیلتھ طیارہ امریکی مسلح افواج کیلئے بنایا جائے — فوٹو: کریئیٹو کامنز
ضروری نہیں کہ اسٹیلتھ لڑاکا اور بمبار طیاروں کا ہر پروگرام کامیاب رہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہر اسٹیلتھ طیارہ امریکی مسلح افواج کیلئے بنایا جائے — فوٹو: کریئیٹو کامنز

اسٹیلتھ لڑاکا اور  بمبار طیاروں سے لیس ہونے کے باوجود امریکی فوج صرف ایف 35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی ہی تعداد کو 2500 تک لے جانا چاہتی ہے۔

ضروری نہیں کہ اسٹیلتھ لڑاکا اور بمبار طیاروں کا ہر پروگرام کامیاب رہے اور نا ہی یہ ضروری ہے کہ ہر اسٹیلتھ طیارہ امریکی مسلح افواج کے لیے بنایا جائے۔

درحقیقت ایسے بہت ہی کم اسٹیلتھ طیارے ہیں جن کے بارے میں شاید ہی آپ نے سنا ہو لیکن یقیناً انہوں نے ایوی ایشن اور اسٹیلتھ ڈیزائن پر متاثر کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

امریکا کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں تناسب اور تنوع کے اعتبار سے سب سے زیادہ اسٹیلتھ طیارے آپریٹ کرنے والا ملک ہے، اسٹیلتھ کے 3 پلیٹ فارم تو عوامی سطح پر موجود ہیں جبکہ کم از کم مزید تین ڈویلپمنٹ کے مراحل میں ہیں۔

ایف 22 ریپٹر، ایف 35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر یا بی 2 میں بڑی تعداد ایسے طیاروں کی ہے جنہیں پروگرام کی معطلی کی وجہ سے یا پھر کومبیٹ خدمات کا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھی آپریشنل ہینگر کا راستہ دیکھنا نصیب نہیں ہو سکا ہے۔

کبھی کبھی یہ پروگرام صرف جدید تکنیکی نظریات اور نئے کلاسیفائیڈ سسٹم کو جانچنے یا پھر دوسرے طیاروں کی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے مقصد سے شروع کیے جاتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کی نوعیت کے باعث نئے اسٹیلتھ طیارے انتہائی راز داری کے ساتھ بنائے جاتے ہیں،  ایف 117 نائٹ ہاک اس کی ایک مشہور مثال ہے جو کہ امریکی حکومت کی جانب سے اس کی موجودگی کے اعلان سے کافی سال پہلے سے ہی آپریشنل تھا۔

اسی طرح پروٹوٹائپز، ٹیکنالوجی ڈیمانسٹریٹر خدمات کے مقاصد سے ہی شروع ہوتے ہیں تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر سالوں تک بلکہ یہاں تک کہ اڑانوں کے خاتمے تک بھی پراسراریت میں غائب رہتے ہیں۔

عام طور پر بلیک پروگرامز کی اصطلاح پینٹاگون کی جدید ٹیکنالوجیز کی ڈویلپمنٹ کے لیے کی جانے والی فنڈنگ کی تاریخ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، آج بھی ایسی انتہائی رازدارنہ کوششوں کے لیے اسپیشل ایکسس پروگرام کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، یہ پروگرامز اور ان سے متعلقہ معلومات اعلیٰ سطحی سکیورٹی کلیئرنس کی تقاضا کرتی ہے۔

ایسی تمام کوششیں انتہائی رازداری کے ساتھ کی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کو دستاویزی شکل بھی نہیں دی جاتی ہے اور یہ معلومات صرف زبانی کلامی اعلیٰ حکومتی نمائندگان تک پہنچتی ہیں۔

جیسا کہ ہم امریکا کے دیومالائی  جیسے جاسوس طیاروں کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ ان طیاروں میں سے کئی تو کبھی ظاہر ہی نہیں کیے جاتے لیکن ان طیاروں میں کچھ بلیک بجٹ کے پردوں سے ظاہر ہوئے تو کچھ اپنے وجود کے اعلان سے قبل ریڈار سے کھسکتے ہوئے اپنی جھلک دکھا گئے۔

بوئنگ برڈ آف پرے

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

1990 کی دہائی سے مکڈونل ڈگلس فینٹم ورکس کے انجنیئرز کی ایک ٹیم نے ایریا 51 کے خفیہ پروگرام کے تحت یہ منفرد اسٹیلتھ ائیر کرافٹ تیار کیا تھا جسے لوگ ’’برڈ آف پرے‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

دیگر اسٹیلتھ پروگرامز سے ہٹ کر یہ طیارہ وائی ایف 118 جی کے نام سے آپریشنل مقاصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، اس کے ڈیزائن کے عناصر پر سیمز ہینگر میں اب بھی کام کیا جا رہا ہے۔

اس نوعیت کے اکثر طیارے بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ ہوتی ہیں تاہم برڈ آف پرے ایریا 51 میں ایک پیڈ پیپر ڈیزائن سے آسمان کی بلندیوں تک اڑان بھرنے تک صرف ایف 35 جتنی لاگت میں تیار ہوا اور شروع سے آخر تک پورے پروگرام کی لاگت صرف 67 ملین ڈالرز تک آئی تھی۔

سنگل پریٹ اینڈ وائٹنی جے ٹی 15 ڈی 5 سی ٹربو فین انجن کا حامل یہ طیارہ صرف 3 ہزار 190 پاؤنڈ تھرسٹ پیدا کرتا ہے اور برڈ پرے کوئی لڑاکا طیارہ نہیں تھا مگر اس نے ثابت کیا تھا کہ بوئنگ کے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جن سے جدید اسٹیلیتھ طیارے بنائے جائیں جنہیں ریپڈ پروٹو ٹائپنگ اور سنگل پیس مٹیریل سے تیار کیا جا سکتا ہے۔

مکڈونل ڈگلس اے 12 اوینجر 2

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

جنوری 1988 میں مکڈونل ڈگلس اور ڈائنامکس کی ایک مشترکہ ٹیم کو ایسے پراجیکٹ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس نے اے 12 اوینجر 2 کی صورت اختیار کی۔

اپنی تکونی شکل کی وجہ سے اے 12 کو ’’دی فلائنگ ڈوریٹو‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

حملے کیلئے استعمال ہونے والی اپنی صلاحیتوں کے باوجود ایف 117 نائٹ ہاک کو ’’ایف‘‘ ڈیسگنیٹر دیا گیا جبکہ حقیقت میں یہ ایک اسٹیلتھ فائٹر طیارہ تھا۔

ایف 117 میں ائیر ٹو ائیر لڑنے کی صلاحیت نہیں تھی جو کہ ایک عام لڑاکا طیارے میں موجود ہوتی ہے مگر ائیرفورس کو اس سے امید تھی ایک ایسے اسٹیلتھ فائٹر کی جو ماہر ہوابازوں کو اپنی جانب کھینچ سکے۔

نیوی نے اپنے اسٹیلتھ جیٹ میں ایسی کوئی چالبازی سے کام نہیں لیا تھا، انہوں نے اس کے لیے ’’اے‘‘ ڈیسگنیٹر استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا جس کا مقصد ائیر ٹو ائیر کے بجائے اپنے زمینی ٹارگٹ کو نشانہ بنانا تھا۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ امریکا کا اصل میں پہلا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ تھا۔

1991 سے اے 12 منصوبہ بہت پھیل چکا تھا اور بجٹ سے نکلنے کے بعد بھی اپنے طے شدہ شیڈول سے بہت پیچھے رہ گیا تھا اور آگے چل کر یہی چیزیں اس کے غیر رسمی طور پر معطل ہونے کا سبب بن گئیں۔

بوئنگ کا ماڈل 21-853 کوائٹ برڈ 

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

وسیع پیمانے پر بھولا بسرا ماڈل 21-853 کوائٹ برڈ ایک پروٹوٹائپ اسٹیلتھ طیارہ ہے جو کہ ایف 117 کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔

اس کی تیاری مطالعاتی بنیادوں پر شروع ہوئی تھی جسے بعد میں ایک لو آبزروایبل طیارے سے تبدیل کر دیا گیا تھا جو ایک آبزرویشن طیارے کے طور پر امریکی فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکے۔

63-1962 کوائٹ برڈ کیلئے اسٹیلتھ طیاروں کی ڈیزائن اور نظریات کے لیے بوئنگ نے تجربات شروع کیے تھے، اس جہاز کے ٹیسٹ سے وہ نتائج برآمد نہ ہو سکے جن کی توقع کی جا رہی تھی اور امریکی فوج نے اس بات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی کہ اسٹیلتھ ائیرکرافٹ کسی جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتا ہے، بلآخر یہ منصوبہ بالائے طاق رکھ دیا گیا مگر اس سے کئی چیزیں سیکھی گئی تھیں جو آگے چل کر اے جی ایم 86 ائیر لانچ میزائل کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

ناسا اور بوئنگ کا ایکس 36 ٹیل لیس فائٹر ایجلیٹی ریسرچ ائیر کرافٹ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

برڈ پرے کی طرح ایکس 36 پروگرام بھی کوئی لڑاکا طیارہ بنانے کے لیے شروع نہیں کیا گیا تھا لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی میچوئر ہوتی جا رہی تھی تو یہ طیارہ بھی اپنے راستے کا تعین کرتا گیا۔

آج اسٹیلتھ طیاروں کو نشانہ بنانا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن انہیں اسپاٹ کرنا یا انہیں ٹریک کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں، وہ پرانے ریڈار سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

90 کی دہائی کے وسط میں ناسا اور مکڈونل ڈگلس (بعد میں بوئنگ) اسٹیلتھ کی پروں میں بی 2 کی طرح موجود ڈیزائن کے گیپ کو دور کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں شروع کیں۔

انہوں نے مل کر عام لڑاکا طیاروں کے جیسی ٹیل (empennage) کے بغیر ایکس 36 طیارہ بنانے پر کام شروع کر دیا۔

یہ ایک فل سائز لڑاکا طیارے کے 28 فیصد اسکیل پر بنایا گیا جس کی لمبائی محض 19 فٹ تھی، ایکس 36، 25 ہفتوں میں 31 پروازیں کرنے میں کامیاب ہوا اور 4 مختلف فلائٹ کنٹرول سافٹ ویئرز کو استعمال کرتے ہوئے اس نے 15 گھنٹے 38 منٹ تک اڑان بھری۔

مزید خبریں :