بلاگ
Time 18 ستمبر ، 2022

تباہی سے بچاؤ کیسے؟

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تاحال زندگی معمول پر نہیں آسکی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ عالمی امدادی ادارے اور مقامی فلاحی تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے کام کر رہی ہیں لیکن سیلاب سے آنے والی تباہی اس قدر زیادہ ہے کہ شاید ہم ابھی تک اس کا درست طور پر اندازہ بھی نہیں لگا سکے ۔

 اس حوالے سے مختلف عالمی مالیاتی اداروں اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے معاشی نقصان کے جو اعداد وشمار جاری کئے گئے ہیں وہ 32 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ سرکاری اندازوں کے مطابق، سیلاب سے متاثرہ 118 اضلاع میں تقریباً 37 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی ہے جب کہ غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی 22 سے بڑھ کر 36 فی صد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فی کس آمدنی اور جی ڈی پی کی شرح میں نمایاں کمی کا اندیشہ ہے۔

سیلاب کے باعث سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے کو پہنچا ہے اور تقریباً 82 لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کپاس، چاول اور مکئی کے علاوہ دیگر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں جب کہ سبزیوں کی پیداوار بھی شدید متاثر ہو ئی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے یہ صورتحال اس وجہ سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ اگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مزید بارشیں ہوتی ہیں یا کھیتوں میں پہلے سے موجود پانی کو مکمل طور پر نہ نکالا گیا تو گندم کی فصل متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جس سے ملک میں غذائی بحران جنم لے سکتا ہے۔

زراعت کے بعد جو دوسرا سیکٹر سیلاب کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں کپاس کی تقریباً 80 فیصد فصل تباہ ہو گئی ہے جو پاکستان کی کپاس کی کل پیداوار کا تقریباً 30 فیصد بنتی ہے۔ اس طرح پہلے سے کپاس کی قلت اور یارن کی زیادہ قیمتوں کے باعث عالمی سطح پر مسابقت کے حوالے سےمشکلات کا سامنا کر رہا ٹیکسٹائل کا شعبہ مزید معاشی دبائو کا شکار ہو گیا ہے۔

 واضح رہے کہ گزشتہ چند سال سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کپاس کی40لاکھ گانٹھیں درآمد کر رہا ہے لیکن اس سال شاید ہمیں اس سے دگنا زیادہ کپاس درآمد کرنی پڑے گی جس پر تین ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اس تباہی کی بڑی وجہ عالمی سطح پر آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جن کا ذکر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بھی اپنے دورۂ پاکستان میں کیا ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان مون سون نظام میں پہلی اہم تبدیلی کا تجربہ کررہا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان اس بڑے پیمانے پر آنے والے غیر دریائی سیلاب کا شکار ہوا ہے ۔ بارشوں کی نسبت دریائی سیلاب کی پیشگوئی کرنا آسان ہے۔

 تاہم اب طوفانی بارشوں، گلیشیرز کے پگھلنے، فلیش فلڈ (تیزی سے آنے والے سیلاب) اور بادل پھٹنے کی پیش گوئی کرنا قدرے مشکل کام ہے۔دوسری جانب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگرچہ انفراسٹرکچر اور فصلوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ سینکڑوں انسانی جانوں کے زیاں اور لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت سے پاکستان کو بہت بڑا معاشی دھچکا لگا ہے لیکن یہ نقصان آنے والے دنوں میں کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے کیوں کہ سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں زندگی معمول پر آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

 اس لئے ضروری ہے کہ ہم مستقبل میں اس طرح کی تباہی کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے ابھی سے کام شروع کریں تاکہ دہائیوں سے جاری سیلاب کی تباہ کاریوں سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں محکمہ موسمیات کے جاری کردہ اعدا دوشمار مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ محکمۂ موسمیات کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1961ء سے اب رواں سال اگست کے مہینےمیں سب سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ اگست کے مہینے میں قومی سطح پر بارشوں کی اوسط 243 فیصد زیادہ رہی جب کہ بلوچستان میں یہ شرح 590فیصد اور سندھ میں 726 فیصد سے زیادہ تھی۔ اس لئے ترجیحی بنیادوں پر بارشی پانی کی نکاسی کے قدرتی راستوں (ڈرینز)کےتحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے بہائو میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح دریائوں کے کناروں کو بحال کرنے اور مضبوط بنانے پر سرمایہ کاری کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ پانی کشش ثقل کے ساتھ بہتا ہے اور ہم اگرقدرت کے اس اصول کی پاسداری نہیں کریں گے تو پھر اس کا خمیازہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کی شکل میں بھگتنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں انفراسٹرکچر اور تعمیرات کے معیارپر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مون سون کی شدید بارشوں یا سیلاب کے باعث پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔

سیلاب کے باعث سب سے زیادہ زراعت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے اس لئے ہر سیلاب کے بعد دیہی علاقوں میں متاثرین کو مالی امداد دے کر اپنی ذمہ داری سے دامن چھڑانے کی بجائے حکومتی سطح پر رسک ٹرانسفر اور انشورنس اسکیموں پر توجہ دینی چاہئے۔ یہ پالیسی شہری علاقوں میں غیر رسمی بستیوں اور کچی آبادیوں کے لئے بھی اپنائی جا سکتی ہے۔ 

یہ اقدام اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری معیشت پہلے ہی بہت کمزور بنیادوں پر استوار ہے ایسے میں پاکستان ترقیاتی منصوبوں میں کمی کرکے یا عالمی برادری سے قرض اور امداد لے کر نقد رقوم کی تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔علاوہ ازیں پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرات بنیادی طور پر مقامی مسئلہ ہیں۔ اس لئے ان کا حل فعال مقامی حکومتوں اور مقامی اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقامی حکومتیں فعال ہوتیں تو ناصرف سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو محدود کیا جاسکتا تھا بلکہ ریلیف کی سرگرمیاں شروع کرنے میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر سے بھی بچا جا سکتا تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔