پاکستان
Time 26 ستمبر ، 2022

سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی نکاس نہ ہو سکا، وبائی امراض پھیلنے لگے

سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی نکاس نہ ہو سکا، وبائی امراض پھیلنے لگے

سندھ بارشوں اور سیلابی ریلوں کی تباہیوں کے بعد ایک مہینہ گذر جانے کے باوجود مختلف علاقوں سے تاحال سیلابی پانی نکاس نہ ہو سکا جس کے باعث وبائی امراض پھیلنے لگے۔

خیرپور کی تحصیل ٹھری میرواہ میں اب بھی کئی کئی فٹ پانی جبکہ دادو کا 70 فیصد علاقہ تاحال زیر آب ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق ضلع بھر میں ملیریا، ڈائریا اور گیسٹرو کے مریضوں کی تعداد 26 ہزار 5 سو تک پہنچ گئی ہے۔

خیرپور کی تحصیل ٹھری میرواہ میں اب بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوا ہے جس کے باعث دو ماہ سے شہر کا کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر اور خیرپور سمیت دیگر شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہے، متاثرین کا کہنا ہے کہ انکے مکان گر گئے، فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، وہ بے سر و سامان ہو چکے اور اب ان میں وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

دادو میں بندوں اور سیم نالوں میں پڑنے والے 20 سے زائد شگاف پُر نہ ہوسکے، خیرپور ناتھن شاہ اور جوہی میں سیلابی پانی کے باعث ملیریا، ڈائریا اور گیسٹرو کی بیماریاں پھیلنے لگی۔

سانگھڑ کے مختلف علاقوں سے بھی تاحال پانی کی نکاسی عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے، متاثرین کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار امداد کے منتظر ہیں۔

مٹیاری میں سیلابی پانی کا نکاس نہ ہونے پر متاثرین نے نیو سعیدآباد کے مقام پر قومی شاہراہ پر دھرنا دیتے ہوئے کراچی سے پنجاب جانے والی سڑک بند کردی، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ متاثرہ علاقوں سے پانی نکالا جائے، متاثرین کو امداد دی جائے اور میڈیکل کیمپ لگائے جائیں۔

بدین میں پران ندی پر پڑنے والا شگاف بھی 28 روز گزرنے کے باوجود تاحال پر نہیں کیا جاسکا ہے جس کے باعث اب تک 6 یونین کونسلوں کے 150 سے زائد دیہات زیر آب آچکے ہیں، محکمہ آبپاشی کے حکام کا کہنا ہے کہ شگاف پر کرنے کیلئے کام جاری ہے۔

ٹھٹہ میں دریائے سندھ کے قریب بند پرمتاثرین ڈیڑھ ماہ سے موجود ہیں، متاثرین کی اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی جھونپڑیوں کی چھتیں بھی تیز ہواؤں سے اڑ گئیں۔

دوسری جانب قمبر شہدادکوٹ میں کئی مقامات پر پانی کی سطح کم ہو چکی ہے، صورتحال بہتر ہونے کے بعد متاثرین واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے منتظر ہیں۔

مزید خبریں :