بلاگ
Time 30 ستمبر ، 2022

جرائم بڑھتے جا رہے ہیں مگر....!

موجودہ حکومت کی ناکامیوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ یہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کے لئے آئی مگر اس نے لوگوں کو مہنگائی کی دلدل میں پھنسا دیا۔ ہر محاذ پر ناکام ہوتی ہوئی حکومت وزیروں مشیروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کررہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کابینہ میں شامل 74 افراد میں سے 23 مشیر ایسے ہیں جن کے پاس کوئی محکمہ ہی نہیں، آپ انہیں نئی اصطلاح میں معاونین خصوصی بھی کہہ سکتے ہیں۔ چند وزراءابھی ایسے ہیں جو محکمے کے بغیر کام کر رہے ہیں ان میں شیخوپورہ کے جاوید لطیف بھی شامل ہیں۔

میاں شہباز شریف لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدے تک تو ٹھیک تھے، وزارت اعلیٰ انہوں نے بھائی کے زور پر چلائی اور اب جب سو جتنوں کے بعد بھائی کی جگہ پر آئے تو بالکل بے بس ہوگئے، انگریزی سوٹ پہننے سے مسائل حل نہیں ہوتے، کسی دوسرے کا لباس پہن کر یا کسی دوسرے کی زبان بول کر اپنے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سوٹوں کی خوشی فہمی میں مبتلا شہباز شریف نے لوگوں کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔

 شہباز شریف سے پہلے یوسف رضا گیلانی بھی سوٹوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہوا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کی ساری توجہ اپنی ذات اور اپنے لباس پر ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ حالیہ لیکس نے انہیں مزید بے نقاب کیا ہے کہ کس طرح یہ لوگ عوام سے دھوکہ کرتے ہیں۔

شہباز شریف کی حکومت میں نہ صرف غریب پریشان ہوئے ہیں بلکہ مڈل کلاس کے ساتھ اپر کلاس بھی ڈسٹرب ہو کر رہ گئی ہے۔ زیادہ پریشان ہونے والے طبقات میں لوئر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس شامل ہیں، یہ سفید پوش لوگ نہ جھولی پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی چوری اور ڈاکے کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔

 جرائم عام طور پر دو طبقات کرتے ہیں امیر طبقہ یا غریب طبقہ، امیر طبقہ بڑے جرائم کرتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا جبکہ غریب طبقہ چوری اور ڈکیتی کرتے ہوئے پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں بڑے شہروں میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ کراچی میں روزانہ ہزاروں وارداتیں ہو رہی ہیں۔ موبائل اور پرس چھین کربھاگنے والے اب ڈاکوں پر اتر آئے ہیں، کراچی میں راہ گیروں کا لٹ جانا عام سی بات ہوگئی ہے، اب تو لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔

موبائل اور پرس چھیننے کی وارداتوں نے لاہور اور اسلام آباد کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ رانا ثنا اللہ بڑھکیں تو بہت مارتے ہیں مگر اسلام آباد میں آج کل روزانہ ڈیڑھ سے دو سو وارداتیں روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد پولیس پر مرضی کے افسران مسلط کرکے پوری نفری کو برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ دو روز پہلے بڑھک باز کو اسلام آباد میں کسانوں نے بے نقاب کردیا تھا ۔صرف بے نقاب ہی نہیں، بے بس بھی کردیا تھا۔ اس حکومت کے عہد میں مزدور، کسان، تاجر، سرکاری و غیر سرکاری ملازم، ملا اور درویش سب پریشان ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں کے عام محلوں میں مختلف گروہ مختلف وارداتیں کر رہے ہیں۔

 ان گروہوں میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی شامل ہیں۔ اب ان گروہوں نے چھوٹے قصبوں اور دیہات کا راستہ بھی دیکھ لیا ہے۔ اس لئے اب پورا معاشرہ ہی جرائم کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ ہر طرف چوروں کا راج ہے۔ معاشرہ بے بس ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں لوگ روٹی روزی پوری کریں یا چوروں اور ڈاکوئوں کا پیچھا کریں۔

 اس وقت معاشرے میں مختلف گروہ جس طرح کی انوکھی وارداتیں کر رہے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدرپستی میں گر چکا ہے۔ پہلے معاشرے کو چند مافیاز کا سامنا تھا مگر اب ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی مافیا ہے۔ ہر قصبے اور گائوں میں مافیا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے یہ پورا معاشرہ مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہو، اس کا علاج کون کرے۔ 

شاید یہ موجودہ حکمرانوں کے بس کی بات نہیں، جو لوگ ڈار کی آمد کو مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اسی ڈار کےسبب ہماری معیشت بیمار ہوئی ورنہ 1990ء سے پہلے ہم بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے تھے، اسی نے ستیاناس کیا، اسی سے آس لگائے بیٹھے ہو، اسی نے تو منی لانڈرنگ جیسے گھنائونے کھیل کھیلے تھے۔ ملک کے پہلے ہی برے حالات ہیں کہ؎

مرشد وطن میں لوگوں کے حلیے بدل گئے

مرشد یہ زندگی بھی تو جاں کا وبال ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔