بلاگ
Time 19 اکتوبر ، 2022

نیا الیکشن کیوں نہیں ؟

میڈیا غیر جانبدار ہے، یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ اپنے اپنے دورِ اقتدار میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے بہت سے صحافیوں کو پال پوس کر جوان کیا۔ تحریکِ انصاف نے اس طرح کی خریداری تو نہیں کی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کی محبت میں بہت سے صحافی بھی تمام اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ لوگ خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ انسانی ذہن تعصبات سے مکمل آزادی نہیں پا سکتا سوائے اس شخص کے جو غیر معمولی علم رکھتا ہو، ہمیشہ اپنے باطن پہ نگران رہے اور سچ بولنے کا اس نے تہیہ کر رکھا ہو۔

بھٹو کے بعد پہلی بار پاکستانی سیاست میں اتنی پولرائزیشن ہو گئی کہ ہر شخص یا تو عمران خان کا حامی ہے یا اس کا مخالف۔ غیر جانبدار اب کوئی نہیں۔ حتیٰ کہ گھروں سے باہر نہ نکلنے اور دنیا سےکٹی ہوئی ستر ستر سالہ عورتوں سے بھی سوال کیجیے تو اپنی سیاسی وابستگی کا وہ ڈنکے کی چوٹ پہ اظہار کرتی ہیں۔ گیارہ قومی و صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخاب کے ضمن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا۔ 

ایک شخص سے اگرمیری دشمنی ہے اور میں اس سے لڑنے جارہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ اکیلا میرا انتظار کر رہا ہے لیکن میں بارہ تیرہ جنگجو اپنے ساتھ لے کر چلوں، جب کہ چوکیدار کی حمایت بھی مجھے حاصل ہو تو پیچھے کیا رہ گیا۔ اپنی شکست تو میں نے پہلے ہی تسلیم کر لی۔ وہ اکیلا شخص برا ہو یا اچھا، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ نفسیاتی فتح تو اسے مل چکی۔ پھر اگرپورے لشکر کے مقابل کھڑا وہ تنہا شخص آٹھ میں سے چھ نشستیں جیت لے تو پیچھے رہ کیا گیا۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا یہ ہے کہ عمران خان نے ایک سیٹ رکھ کر باقی چھوڑ دینا ہیں۔ یوں ایک ایک حلقے پر کروڑوں روپے کے انتخابی اخراجات کی صورت میں کپتان قوم کے اربوں روپے ضائع کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ان لوگوں سے میرا سوال یہ ہے کہ جب عمران خان کی ساڑھے تین سال سے چلتی ہوئی حکومت گرا کر پی ڈی ایم نے حکومت بنائی تو کیا اس سے ملک کو کوئی مالی نقصان نہیں ہوا؟ عمران خان گئے تو ڈالر 187روپے کا تھا، 240روپے تک جا پہنچا۔ اسحٰق ڈار کو درآمد کر کے اب اسے 219روپے پر لا کر حکومت فتح کے شادیانے بجا رہی ہے۔ ڈالر میں اضافے سے معیشت کو جو نقصان پہنچا اور پیٹرول کی قیمت جیسے اوپر گئی، دس بارہ حلقوں کے انتخابی اخراجات اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔

حکومت میں مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر زرداری اور شریف پارٹی سے لے کر بے شمار چھوٹی جماعتیں شامل تھیں۔ ان سب کو وزارتیں دینا ایک مجبوری تھی۔ ایسے وزیر بھی بنائے گئے، جن کیلئے آج تک محکمہ ہی ڈھونڈا نہیں جا سکا۔ کیا اس سے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوا؟ اس ملک کو، جو دیوالیہ ہونے کے شدید خطرے سے دوچار ہے، اسحٰق ڈار اور شریف خاندان کے خلاف برسوں سے چلتے مقدمات اور تحقیقات پر جو زرِ کثیر ریاست نے خرچ کیا تھا، کیا وہ ضائع نہیں گیا؟

اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمٰن اور زرداری صاحب جیسے تر دماغ موجود ہیں۔ انہوں نے جیسے تحریکِ انصاف کے باقی ممبرز کے استعفے منظور نہیں کیے تو ان گیارہ حلقوں کے بھی نہ کرتے۔ کیا یہ عظیم دماغ الیکشن کی فضول خرچی روکنے کے لیے سامنے کا یہ راستہ بھی چن نہ سکے۔ بالکل برعکس انہوں نے گیارہ ایسی نشستوں پہ تحریکِ انصاف کے استعفے قبول کر کے الیکشن کرائے، جہاں ان کا خیال یہ تھا کہ کپتان کو وہاں پچھاڑ کر اس کے اعصاب توڑ ڈالیں گے۔

عمران خان کو اس حال میں لوگوں نے قومی اسمبلی کے چھ حلقوں میں فتح دلائی، جب کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے چکا۔ دوبارہ اسمبلی جانا بھی مشکوک ہی ہے؛ حالانکہ کپتان نے اپنی پشت پر ساڑھے تین سالہ اقتدار کا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ ان ساڑھے تین برسوں میں ملکی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مہنگائی اور بے روزگاری رک نہ سکی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ قرض لینا پڑا تو خودکشی کر لوں گا۔ ہر اس ملک سے قرض لیا گیا، جس سے لیا جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود جس طرح سے اس کی حکومت گرائی گئی، اسے عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ کہانی ختم ہو چکی۔

حکومت میں آنے کے بعد جب پی ڈی ایم قیادت اور بالخصوص شریف خاندان نے ملکی معاشی صورتِ حال دیکھی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے تیل کی قیمت بے تحاشا بڑھانا ہوگی تو شریف خاندان سوچتا رہا کہ ایسے سخت فیصلے کرنے اور اس کا سیاسی نقصان اٹھانے کی بجائے دوبارہ الیکشن کرا دیے جائیں۔ اس کے باوجود اب وہ الیکشن کی راہ میں ڈٹ کر کھڑا ہے۔ تین ساڑھے تین سال کپتان نے حکومت کی۔ پھر تمام سیاسی جماعتیں یکایک متحد ہوئیں، اچانک ان پہ انکشاف ہو اکہ مل کر وہ کپتان کی حکومت گرا سکتی ہیں۔ پھر چھ ماہ انہوں نے بھی حکومت کر لی۔ پھر ضمنی الیکشن میں انہیں عبرت ناک شکست ہوئی۔

 سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ملک میں معاشی عدم استحکام ہے ۔اسلام آباد کو چاروں طرف سے کاٹ کر ایک جزیرہ بنا دیاگیا ہے۔ بڑے کاروباری اپنا سرمایہ چھپا کر بیٹھے ہیں یا اسے بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں۔ اسحٰق ڈار اور شریف خاندان کی مقدمات میں بریت اور سزائوں کے خاتمے سے بڑے جرائم پیشہ عناصرکو یہ اطمینان حاصل ہو ا کہ پاکستان جیسے ملک میں ریاست کو ہمیشہ جھکایا جا سکتاہے ۔ قانون واقعی مکڑی کا جال ہے، بڑا جانور جسے توڑ ڈالتا ہے۔

پی ڈی ایم اور بالخصوص شریف خاندان کی طرف سے الیکشن سے یوں صاف انکار ہے، جیسے ابھی ابھی وہ عوام سے فریش مینڈیٹ حاصل کر کے اقتدار تک پہنچا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی ضد پہ اڑی ہوئی ہے ؛حالانکہ تحریکِ انصاف کی فتح کے بعد اسے بھی اپنا وزن نئے الیکشن کے پلڑے میں ڈال دینا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔