کپتان ڈوب چکا ؟

ملک میں جاری سیاسی کشمکش کا انجام کیا ہوگا؟ کیاتیزی سے ہم ایک نئے الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں یا کپتان ملکی سیاست سے مائنس ہو چکا ؟

30اکتوبر 2011ء سے اب تک کپتان کی سیاست حیران کن رہی ہے ۔ پچھلے گیارہ برس سے پے درپے کئی خنجر اس کے جسم میں اترچکے ہیں مگراس کے قدم اب تک نہیں ڈگمگائے۔ عمران خان کی سیاست میں سب سے اہم بات شاید یہ ہے کہ جب سب کو اس کے ڈوب جانے کا یقین ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ ابھرتا اور حملہ آور ہوتا ہے ۔

جاوید ہاشمی تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تو ایک انگریزی اخبار نے تصویر شائع کی کہ قد آور جاوید ہاشمی اپنے سے کئی گنا کم تجربہ کار رہنما عمران خان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب جاوید ہاشمی کہیں نمودار ہوتے تو ’’باغی ، باغی ‘‘ کے نعرے گونجتے ۔ عمران خان کے جسم میں پہلا خنجر اس وقت اترا جب اس ہیرو نے 2014ء کے دھرنے میں عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کی ۔ یہ بتایا کہ دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے وقوع پذیر ہوا ۔ جاوید ہاشمی اس کے بعد زیرو ہوتے چلے گئے ۔ خان وہیں کا وہیں رہا۔

اس سے بھی پہلے میرے والد ہارون الرشید اورپروفیسر احمد رفیق اختر سے اس کے تعلقات منقطع ہوئے ۔ والد صاحب نے مگر کبھی اسکے خلاف انتقامی رویہ اختیار نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی نہ صرف اسے صائب مشورہ فراہم کرتے بلکہ اس کی حمایت بھی کرتے ہیں ۔ 2013ء کے الیکشن سے ایک برس قبل تجزیہ کار ایاز امیر صاحب نے ایک کالم لکھا۔ لب لباب یہ تھا کہ کپتان کو برسرِ اقتدار لانے کیلئے ایک سازش تیار کی گئی ہے ، ہارون الرشید، پروفیسر احمد رفیق اختراور جنرل کیانی جس میں شامل ہیں ۔

جنرل حمید گل وہ منصوبہ ساز تھے، تین عشرے قبل میرے والد کو جنہوں نے عمران خان کے پاس بھیجا کہ اسے سیاست میں آنے پر آمادہ کریں ۔ بعد ازاں جنرل حمید گل سے بھی اس کی رفاقت ختم ہو گئی ۔ اکبر بابر صاحب ان دوستوں میں سے تھے،رفاقت ختم ہونے پر جو حریف بن گئے ۔ فارن فنڈنگ کیس انہی کی تگ و تاز ہے ۔ ارشد شریف شہید نے بھی فارن فنڈنگ پر ایک پروگرام کیا تھا، رئوف کلاسرہ اور عامر متین صاحب جس میں شریک تھے ۔ برسبیلِ تذکرہ ، عمران خان نے جب اکبر بابر کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی تھی تو انہیں بھی خاموش ہو جانا چاہئے تھا۔ نون لیگ ، پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کی فنڈنگ کتنی شفاف ہے ، یہ ایک کھلا راز ہے ۔

پانامہ لیکس کے ہنگام میں جب یہ انکشاف ہوا کہ عمران خان نے بھی اپنے فلیٹ کے لیے ایک آف شور کمپنی بنارکھی تھی تو لوگوں نے سوچا کہ کپتان کی کریڈیبلٹی ڈوب گئی ۔ ریحام خان سے شادی اور پھر اس شادی کا انجام ، سابقہ اہلیہ کی لکھی گئی کتاب ، یہ سب وہ چیزیں تھیں ، جو کسی لیڈرکو ڈبونے کے لیے کافی تھیں ۔ کوئی مگر اسے ڈبو نہ سکا ۔

یہودیوں کا ایجنٹ ہونے کا بیانیہ اس وقت تیار کیا گیا تھا ، جب سیاست میں نمودار ہونے کے بعد اس نے میاں محمد نواز شریف کا حاشیہ بردار بننے کی ان کی فرمائش مسترد کر دی ۔ مدتوں ڈھول پیٹے جاتے رہے کہ وہ ایک اخلاق باختہ شخص ہے ، جو مبینہ طور پر ایک خفیہ بیٹی کا باپ بھی ہے ۔ بعد ازاں ریحام خان سے طلاق کے بعد بھی یہ ڈھنڈورا پوری قوت سے پیٹا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست چونکہ عمران خان کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی تھی ؛چنانچہ یہودی ایجنٹ کا بیانیہ انہوں نے اچک لیا اور آج تک پوری قوت سے پیٹ رہے ہیں ۔ ہر کوشش ناکام رہی۔

پانامہ لیکس کے بعد احتجاج قدرے ٹھنڈا پڑا تو کہا گیا کہ قوم بھول جائے گی ۔ اس نے کہا، کیا یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے ، جو قوم بھول جائے گی ۔ رائیونڈ میں ایک عظیم الشان جلسہ کر کے اس نے اتنا دبائو پیدا کیا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ باقی تاریخ ہے ۔ میاں محمد نواز شریف نا اہل کر دیے گئے اور ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘ کی فریاد کرنے لگے ۔

الیکشن 2013ء کی شکست بہت خوفناک تھی، جو عمران خان کی نفسیات کا حصہ بن گئی ۔ 2018ء کا الیکشن آیا تو کپتان نے فوج کی دہلیز پہ جبیںسائی کر لی۔ یہی وجہ تھی کہ اسے’’لاڈلا‘‘ اور ’’سلیکٹڈ ‘‘ کہا گیا۔ آج کتنی آسانی سے یہ داغ اس نے دھو ڈال۔ تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے بھی ضمنی الیکشن جیت نہ سکیں۔ اب مگر یار لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ توشہ خانہ اسکینڈل اسے ڈبوچکا ہے۔ تحائف اپنے گوشواروں میں نہ دکھانے پر وہ نا اہل ہو چکا ہے ۔ گو کہ اس نے قیمت ادا کر کے گھڑی وصول کی تھی مگروہ اسے گھڑی چور کہہ رہے ہیں۔ 

ملکی اور عالمی تاریخ میں شاید پہلی بار انٹیلی جنس سربراہ نے فوجی ترجمان کے ساتھ مل کر کسی سیاسی لیڈر کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ آرمی چیف کو تا حیات منصب پہ فائز رہنے کی پیشکش کا انکشاف۔ مخلوق نے اس پہ بھی شاید ہی کان دھرا ہو ۔ لیگی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ میں لوگوں کی شرکت مایوس کن ہے ۔ کپتان ڈوب چکا ہے۔ کیا واقعی وہ ڈوب چکا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :