وہ قبیلہ جس کے بچے بھی زیرآب 13 منٹ تک سانس روک سکتے ہیں

قبیلے کے لوگ ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن میں رہتے ہیں / فوٹو بشکریہ
قبیلے کے لوگ ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن میں رہتے ہیں / فوٹو بشکریہ  

اگر آپ سانس روک کر چہرے کو پانی سے بھری کسی بالٹی میں ڈبو دیں تو آپ کا جسم خودکار طور پر ایک ایسے عمل کو متحرک کرے گا جسے ڈائیونگ رسپانس کہا جاتا ہے۔

دل کی دھڑکن سست ہوجائے گی، خون کی شریانیں سکڑ جائیں گے اور تلی (spleen) کا حجم گھٹ جائے گا۔

ان سب کا مقصد آکسیجن کی کمی پر جسمانی توانائی کو بچانا ہوتا ہے۔

بیشتر افراد زیرآب چند سیکنڈ تک سانس روک پاتے ہیں، کچھ افراد چند منٹ بھی پانی کے اندر گزار سکتے ہیں ، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا بلکہ اس سے تعلق رکھنے والے افراد کسی سپر ہیرو سے کم نہیں۔

باجاؤ نامی قبیلے کے افراد کو سمندری خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے جو سمندر میں زندگی گزارتے ہیں اور پانی کے اندر 200 فٹ گہرائی میں اوسطاً 13 منٹ تک آسانی سے رہ سکتے ہیں۔

فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رہنے والے یہ افراد مچھلی کے شکار یا قدرتی اشیا کی تلاش کے لیے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں۔

مگر ایسا کیسے ممکن ہوا کہ ایک انسان اتنی دیر تک پانی کے اندر رہ سکے؟ تو اس کا جواب چند سال پہلے ایک تحقیق میں دیا گیا تھا۔

درحقیقت سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ اولین انسان ہیں جن کے جینز نے غوطہ خوری سے مطابقت پیدا کرلی ہے اور ایک ڈی این اے میوٹیشن سے ان کی تلی بڑی ہوگئی ہے جس سے انہیں گہرائی میں غوطہ لگانے کا جینیاتی فائدہ حاصل ہوا ہے۔

تلی کی اہمیت کیا ہے؟

ایک تحقیق میں اس قبیلے کی حیرت انگیز صلاحیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی / فوٹو بشکریہ یونیسکو
ایک تحقیق میں اس قبیلے کی حیرت انگیز صلاحیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی / فوٹو بشکریہ یونیسکو

جسم کے تمام اعضا کے مقابلے میں تلی کے بغیر بھی زندگی گزارنا ممکن ہے، مگر جسم میں اس کی موجودگی مدافعتی نظام کی معاونت کے ساتھ ساتھ خون کے سرخ خلیات کو ری سائیکل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا تھا کہ زیرآب زندگی کا بیشتر وقت گزارنے والے بحری ممالیہ جاندار کی تلی بہت زیادہ بڑی ہوتی ہے۔

تحقیق میں کیا دریافت ہوا؟

قبیلے کے باسی اس طرح کے گھروں میں رہتے ہیں / فوٹو بشکریہ ہارورڈ میگزین
قبیلے کے باسی اس طرح کے گھروں میں رہتے ہیں / فوٹو بشکریہ ہارورڈ میگزین

ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ماہرین نے اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے باجاؤ برادری میں جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا تھا۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ ماہی گیری کے سیزن میں اس برادری کے افراد 60 فیصد وقت زیرآب گزارتے ہیں اور پیدائشی طور پر غوطہ خوری کے ماہر ہوتے ہیں۔

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ باجاؤ قبیلے کے اس طرز زندگی کو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے جس میں اب تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، جس سے آنے والی نسلوں کو جینیاتی طور پر غوطہ خوری کی صلاحیت کو اپنانے کے لیے کافی وقت مل گیا۔

صدیوں کے اس طرز زندگی کے باعث یہ افراد اپنے روزگار کے لیے زیرآب بہت زیادہ وقت سانس روک کر مچھلیاں پکڑنے کے ماہر ہوچکے ہیں۔

تحقیق کے دوران انڈونیشیا میں باجاؤ برادری کے افراد کے نمونوں کا موازنہ ایک اور Saluan گروپ کے لوگوں سے کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ایک باجاؤ فرد کی تلی 50 فیصد بڑی ہے۔

محققین کے مطابق عام افراد طویل وقت تک سانس روکنے کے لیے کئی سال تک مشق کرتے ہیں مگر باجاؤ قبیلے کے افراد کی پیدائش ہی اس صلاحیت کے ساتھ ہوتی ہے۔

تحقیق کے دوران باجاؤ افراد میں پی ڈی ای 10 اے جین کو دیگر سے مختلف دریافت کیا گیا۔

یہ جین تھائی رائیڈ گلینڈ میں موجود ہوتا ہے اور ہارمونز کے اخراج کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔

تحقیق میں یہ دریافت ہوا کہ یہ جین ایسے ہارمونز کا اخراج زیادہ کرتا ہے جو تلی کا حجم بڑھاتے ہیں۔

محققین کے خیال میں نتائج سے مستقبل میں ایسے طریقہ کار مرتب کرنے میں مدد ملے گی جس سے آکسیجن کی تیزی سے کمی کے مسئلے سے دوچار مریضوں کا علاج آسان ہوسکے گا۔

دیگر ماہرین کی رائے کیا ہے؟

پانی کے اندر یہ شکار کرتے ہیں / فوٹو بشکریہ Authentic-Indonesia
پانی کے اندر یہ شکار کرتے ہیں / فوٹو بشکریہ Authentic-Indonesia

ڈیوک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے ماہر رچرڈ مون کے مطابق تلی کا کردار تو اہم ہے ہی مگر دیگر عناصر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

رچرڈ مون انتہائی بلندی اور گہرائی میں انسانی جسم کے ردعمل پر کافی تحقیقی کام کرچکے ہیں۔

ان کے مطابق جب ایک انسان پانی کے اندر غوطہ لگاتا ہے تو دباؤ بڑھنے سے پھیپھڑوں کی خون کی شریانوں میں زیادہ خون بھر جاتا ہے اور سنگین کیسز میں شریانیں پھٹنے سے موت واقع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ باجاؤ قبیلے کے افراد جینیاتی طور پر اس اثر سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔