05 جنوری ، 2023
اگر آپ اکثر ٹرین کا سفر کرتے ہیں تو کبھی یہ خیال آیا کہ ٹریک پر ہر طرف اتنے زیادہ پتھر کیوں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں؟
یہ چھوٹے پتھر ٹریک کے درمیان اور دونوں اطراف میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں تو ان کی موجودگی کی وجہ کیا ہے؟
یہ سوال بہت دلچسپ ہے اور اس کا جواب اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
درحقیقت ریلوے ٹریک پر ان پتھروں کی موجودگی کے پیچھے ایک سائنسی وجہ چھپی ہوئی ہے۔
بظاہر تو ٹرین کا ٹریک دیکھنے میں بہت سادہ نظر آتا ہے مگر حقیقت میں اتنا سادہ نہیں۔
اسٹیل ٹریک کے درمیان کنکریٹ یا لکڑی سے بنے تختے موجود ہوتے ہیں جن کو سلیپر کہا جاتا ہے۔
ان سلیپرز کے نیچے اور درمیان میں پتھر موجود ہوتے ہیں جن کو ballast کہا جاتا ہے، اس کے نیچے مٹی سے بنی مزید 2 تہیں ہوتی ہیں جس کے بعد زمین کی عام سطح آتی ہے۔
یعنی ہم کو تو لگتا ہے کہ ٹریک کو عام سطح پر بچھایا گیا ہے مگر یہ درست نہیں، اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ ٹریک عام سطح سے کچھ بلند ہوتے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں استعمال ہونے والی ٹرینوں کا وزن لاکھوں کلوگرام کا ہوتا ہے اور یہ بوجھ ٹریک اکیلا اٹھا نہیں سکتا۔
ٹریک پر ہر جگہ پھیلے پتھر اس کام میں مدد فراہم کرتے ہیں اور وہ خاص قسم کے ہوتے ہیں جو ٹرین کے گزرنے کے ارتعاش سے بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔
اگر وہاں عام پتھروں کا استعمال ہو تو وہ ٹرین کے گزرنے کے نتیجے میں اپنی جگہ سے سرک جائیں گے جس سے ٹریک بھی اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے۔
اگر آپ ٹریک پر ٹرین کو گزرتے ہوئے دیکھیں تو نظر آئے گا کہ وہاں پھیلے پتھر اپنی جگہ سے ہلتے نہیں جبکہ تختوں کو بھی اپنی جگہ مستحکم رکھتے ہیں، اس طرح ٹریک ٹرین کا بوجھ آسانی سے اٹھا لیتا ہے۔
ان پتھروں کے استعمال کی چند اور وجوہات بھی ہیں۔
جب ٹرین گزرتی ہے تو اس کی حرکت سے ارتعاش بھی پیدا ہوتا ہے جس سے ٹریک کے پھیلنے کا امکان ہوتا ہے، اس ارتعاش کے اثر کو یہ پتھر کم کردیتے ہیں۔
اسی طرح اگر یہ پتھر موجود نہ ہوں تو کنکریٹ کے سلیپرز مستحکم نہیں رہ پاتے اس کے نتیجے میں ٹریک کے لیے ٹرین کا وزن سنبھالنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔
اور ہاں اگر یہ پتھر موجود نہ ہو ں تو ٹریک پر گھاس، پودے اور درخت اگ سکتے ہیں جس سے ٹرین کو سفر کے دوران مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر یہ پتھر کسی قسم کے سبزے کو اگنے نہیں دیتے۔
ان پتھروں کی وجہ سے بارش کا پانی بھی ٹریک پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ زمین کے اندر چلا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار کا استعمال 200 سال سے زیادہ عرصے سے کیا جارہا ہے اور اب بھی بہت مؤثر ثابت ہورہا ہے۔