بلاگ
Time 15 جنوری ، 2023

مریم نواز ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کی امیدوار؟

(گزشتہ سے پیوستہ)

2017میں نواز شریف کی حکومت جن حالا ت میں ختم کی گئی وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو سیاسی منظر سے ہٹا کر2018کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کا سائز کم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی ۔ 

اسی طرح 12اکتوبر 1999کے ’’پرویزی مارشل لاء ‘‘میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پر کاٹنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن مسلم لیگ ن کی صفوں میں کوئی بڑی دراڑ پیدا نہیں ہوسکی جس سے مسلم لیگ ن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکا، نواز شریف نے اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کی جیل کی ساتھی تو تھیں لیکن باپ بیٹی کو جیل میں ملنے کی اجازت نہ تھی۔

 پرویز مشرف اورپھر عمران خان کے دور میں بھی ان کو جیل یاترا کرائی گئی۔ 22 کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم ر روز اپنی بہادر بیٹی مریم نواز کے ساتھ اسلام آباد میں احتساب عدالت میں کھڑے ہو کر ان تمام قوتوں کو جو انھیں سیاسی میدان میں شکست نہیں دے سکتیں، یہ باور کرانے کی کوششیں کرتے رہے کہ وہ جیل جانے سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی ان کے اعصاب اس قدر کمزور ہیں کہ وہ سرنڈر کردیں۔

 مریم نواز اس وقت مشکل ترین وقت میں اپنے باپ کے ساتھ ثابت قدمی سے نہ صرف کھڑی رہیں بلکہ انھیں اپنی سیاسی عمر سے بڑے مشورے بھی دیتی رہیں۔ عملاً مریم،نواز شریف کی سیاسی مشیر بن گئیں نواز شریف کے بیشتر سیاسی فیصلوں میں ان کی رائے شامل ہوتی ہے۔ پارٹی کے اندر چند سینئر مسلم لیگیوں کیلئے یہ صورتحال کبھی قابلِ قبول نہیں رہی لیکن زمینی حقائق ہیں کہ مریم نواز ہی مسلم لیگ ن کی کرتا دھرتا ہیں۔

 مریم نواز اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین سے’’چومکھی‘‘ لڑائی لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ہماری عدالتی تاریخ میں مریم نواز کے بیانات غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے ۔ انھوں نے تین روز تک عدالت میں چار چار گھنٹے کھڑے ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا،انہوں نےابتدامیں نواز شریف کے ہمراہ پورے ملک میں جلسوں سے خطاب کیا اور متبادل قیادت کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوئیں اور کہا ہے کہ ’’نواز شریف کی بیٹی ہونا ہی میرا قصور ہے۔‘‘مریم نواز واقعتاً ’’مجمع‘‘ کی لیڈر بن چکی ہیں۔

 عام تاثر یہ ہے نواز شریف نے جہاں سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا یا تھا ۔ اب پارٹی کو لیڈ کرنےکیلئے مریم نواز کو آگے لا رہے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پرجوش انداز، اس بات کا غماز ہے کہ آئندہ انتخابات میں مریم نواز کو مرکزی رول مل رہا ہے مریم نواز بھی اپنے باپ کی طرح غیر لچک دار رویہ رکھنے والی، جارحانہ سیاست کرنے والی خاتون ہیں جن کے جارحانہ رویے سے بعض اوقات سیاسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن مجموعی طور پر مریم نواز نے اپنے آپ کو ایک مضبوط سیاست دان ثابت کیا ہے جو اپنے باپ کی جگہ بخوبی لے سکتی ہیں۔

انھیں مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالنے کے لئے اپنے ’’انکلز‘‘ سے جان چھڑانے کی بجائے ان سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنی چاہئے ۔ ان کے گرد جو نو وارد مسلم لیگی اکٹھے ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ بنانے کیلئے انھیں ان ’’انکلز‘‘ سے دور کر رہے ہیں جنھوں نے پوری زندگی نواز شریف کو ملک کا بڑا لیڈر بنانے میں صرف کر دی۔سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز کو 13جولائی 2018کو گرفتاری پیش کرنے کے بعد اسی رات اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر پہلے ہی گرفتاری پیش کر کے اڈیالہ جیل پہنچ چکے تھے ،نواز شریف کوقیدی نمبر1421اور مریم نواز کو قیدی نمبر1422الاٹ کیا گیا ،نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز 68روز اڈیالہ جیل میں رہے جب کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر72روز تک اڈیالہ جیل میں ’’سرکاری‘‘ مہمان رہے۔

 کوٹ لکھپت کی تاریخی جیل میں نواز شریف کو قیدی نمبر4470 الاٹ ہوا ۔محمد نواز شریف کواحتساب عدالت نے العزیزیہا سٹیل مل ریفرنس میں 7سال قید 25 ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ طویل عدالتی جنگ میں نواز شریف نے حوصلہ ہارا اور نہ ہی ہتھیار ڈال کر این آر او مانگا، بلکہ تھکا دینے والی طویل عدالتی لڑنے کیلئے ہروز صبح 5بجے اٹھ کر احتساب عدالت پہنچتے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کسی سیاست دان نے اس قدر پیشیاں بھگتی ہوں گی ۔

محمد نواز شریف کوہر جمعرات پارٹی لیڈروں سے ملاقات کی اجازت ہوا کرتی تھی۔مسلم لیگی رہنماؤں کا اپنے قائد محمد نواز شریف ملاقات کے بعد ’’مورال‘‘ بلند ہو جاتا ۔مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں اور عوام کیلئے ’’قطب مینار‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ان سے ملاقات کے بعد ہمارے حوصلے ہمالیہ کی طرح بلند ہو جاتے،مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا سینئر نائب صدر اور پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کئے جانے پر پارٹی میں دوسرے درجے کی تجربہ کار قیادت میں اضطراب کا اظہار کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ اس تقرری کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور اس تقرری سے مریم نواز پارٹی میں اپنے والد نواز شریف اور چچا شہباز شریف کے بعد تیسری طاقتور شخصیت بن گئی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔