18 مئی ، 2023
کیا آپ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں ؟ اگر ہاں تو آپ تنہا نہیں درحقیقت عمر کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں اکثر افراد کو اس تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔
درحقیقت عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیاں بھی کمزور ہونے لگتی ہیں جس کے باعث جوڑوں کا درد لوگوں کو اپنا شکار بنالیتا ہے۔
عموماً یہ مرض خون میں یورک ایسڈ جمنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
یہ یورک ایسڈ عام طورپر خون میں تحلیل ہوکر گردوں کے راستے پیشاب کے ذریعے نکل جاتا ہے مگر جب جسم میں اس کی زیادہ مقدار بننے لگے تو گردے اس سے نجات پانے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں یہ جوڑوں میں کرسٹل کی شکل میں جمنے لگتا ہے جس سے جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے۔
جوڑوں کے امراض کی متعدد اقسام ہیں اور لگ بھگ سب میں ورم کا کردار اہم ہوتا ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند عام عادات اور چیزیں بھی جوڑوں کے امراض کا شکار بنانے کا باعث بنتی ہیں؟
جوڑ ہماری ہڈیوں سے منسلک ہوتے ہیں اور بھاری بوجھ کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں۔
جسمانی وزن میں ہر 400 گرام اضافے سے گھٹنوں پر لگ بھگ 2 کلوگرام دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
ایسا ہی کمر، کولہوں اور پیروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور بتدریج انہیں نقصان پہنچتا ہے جس کے باعث تکلیف ہونے لگتی ہے۔
موٹاپے سے جسمانی ورم بھی بڑھتا ہے اور جیسا اوپر درج کیا جا چکا ہے کہ ورم جوڑوں کی تکلیف کا اہم عنصر ہے۔
موجودہ عہد میں لوگ فونز پر بہت زیادہ ٹیکسٹ میسجز بھیجتے ہیں جس کے دوران انگلیوں کی پوزیشن قدرتی نہیں ہوتی۔
اسی طرح فون کو جھک کر دیکھنے سے گردن اور کندھوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔
خواتین کو یہ جوتے بہت پسند ہوتے ہیں مگر اس سے پیروں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جبکہ رانوں کے مسلز کو بھی گھٹنوں کو سیدھا رکھنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے، جس سے تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔
ایسے جوتے پہن کر چلتے ہوئے ہر قدم پر گھٹنوں پر دباؤ پڑتا ہے جس سے ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں۔
انگلیاں چٹخانے کی عادت سے جوڑوں کی تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا مگر پھر بھی بہتر ہے کہ اس سے گریز کریں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس عادت کے نتیجے میں ہاتھ سوج سکتے ہیں اور ان کی گرفت بھی کمزور ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اب یہ پرس ہو، بیک پیک یا کوئی بھی بیگ، ان میں زیادہ سامان بھرنے سے گردن اور کندھوں میں تکلیف کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بھاری بوجھ سے کندھوں اور چلنے کے دوران جسم کا توازن بگڑتا ہے، خاص طور پر اگر آپ ایک کندھے پر بیگ ٹانگ کر چلتے ہیں۔
اگر آپ بہت زیادہ بھاری بوجھ ننھے مسلز پر ڈال دیتے ہیں تو جوڑوں کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
اگر آپ بھاری دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تو انگلیوں کی بجائے کندھے سے اسے دھکا دیں۔
اگر فرش سے کوئی بھاری چیز اٹھا رہے ہیں تو پہلے گھٹنے موڑ لیں اور اس چیز کو ٹانگوں کے مضبوط مسلز سے اوپر اٹھائیں۔
اگر کوئی چیز ہاتھ میں لے کر چل رہے ہیں تو اسے انگلیوں کی بجائے ہتھیلی سے اٹھائیں۔
اس انداز سے سونے سے ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ پڑتا ہے جبکہ چہرہ بھی ایک سمت کافی دیر تک رکھنا پڑتا ہے جس سے جوڑوں اور مسلز پر دباؤ بڑھتا ہے۔
40 سال کی عمر کے بعد ہڈیوں کا حجم کم ہونے لگتا ہے اور وہ کمزور ہو جاتی ہیں۔
اگر درمیانی عمر میں مسلز کو مضبوط بنانے کی ورزشیں کرنا عادت بنالیں تو ہڈیوں کے حجم میں آنے والی کمی کی رفتار سست کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
اس سے نہ صرف مسلز مضبوط ہوتے ہیں بلکہ ہڈیوں کا حجم بھی بڑھتا ہے اور جوڑوں کی تکلیف سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
تمباکو نوشی جسم کے متعدد اعضا کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور جوڑوں کے امراض کا باعث بھی بنتی ہے۔
تمباکو میں موجود نکوٹین سے ہڈیوں کے لیے خون کا بہاؤ محدود ہوتا ہے جبکہ کیلشیئم کی سطح بھی گھٹ جاتی ہے۔
اس کے نتیجے میں ہڈیوں کا حجم کم ہونے لگتا ہے اور جوڑ کمزور ہو جاتے ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جوڑوں کے امراض کے شکار افراد کو بے خواب راتوں کے باعث زیادہ تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔
ماہرین کے خیال میں نیند کی کمی سے جسم میں ورم متحرک ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ جوڑوں کے مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جب آپ کرسی پر کمر کو آگے جھکا کر بیٹھتے ہیں تو مسلز اور جوڑوں پر دباؤ بڑھتا ہے اور وہ تھکاوٹ کے شکار ہو جاتے ہیں۔
تو کرسی پر کمر سیدھی رکھ کر بیٹھنے کی کوشش کریں۔
اگر ورزش یا جسمانی مشقت کے بعد جوڑوں میں تکلیف کئی دن تک برقرار رہے یا سوجنے کے باعث ان کو حرکت دینا مشکل ہو جائے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اگر یہ تکلیف ختم نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
کمپیوٹر کے سامنے بہت زیادہ وقت بیٹھنے سے گردن، کہنیوں، کلائیوں، کمر اور کندھوں کے جوڑوں میں تکلیف کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف بیٹھنے کے انداز کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مسلز کو بہت زیادہ حرکت دینے سے بھی جوڑوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کوشش کریں کہ ہر ایک گھنٹے بعد کرسی سے اٹھ کر چند منٹ کے لیے چہل قدمی کریں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔