29 جنوری ، 2024
اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا بھر میں کینسر سے اموات کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
تمباکو نوشی کی شرح میں کمی، بہتر علاج اور جلد تشخیص کی سہولیات سے گزشتہ 30 برسوں کے دوران کینسر سے اموات کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
صرف امریکا میں ہی کینسر سے اموات کی تعداد میں لگ بھگ 40 لاکھ کی کمی آئی ہے۔
مگر بری خبر یہ ہے کہ جوان افراد میں کینسر سے متاثر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
درحقیقت کینسر کی مخصوص اقسام سے جوان افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ 1950 کی دہائی کے بعد سے مسلسل بڑھا ہے۔
کچھ عرصے قبل امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی، چین کی Zhejiang یونیورسٹی اور برطانیہ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ 30 سال کے دوران 50 سال سے کم عمر افراد میں کینسر کے کیسز کی شرح میں لگ بھگ 80 فیصد اضافہ ہوا۔
1990 میں جوان افراد میں کینسر کے کیسز کی تعداد 20 لاکھ سے کم تھی مگر 2019 میں یہ تعداد 30 لاکھ سے زائد ہوگئی۔
اس عرصے میں کینسر سے متاثر 30 اور 40 سال سے زائد عمر کے افراد کی اموات کی شرح میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر ہر سال 50 سال سے کم عمر 10 لاکھ سے زائد افراد کینسر کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 1990 کی دہائی میں ہونے والے افراد میں rectal کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ 1980 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں سے 4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
2023 میں امریکن کینسر سوسائٹی نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2019 میں colorectal کینسر کے 20 فیصد کیسز میں مریضوں کی عمر 55 سال سے کم تھی، یعنی جوان افراد میں سرطان کی اس قسم کے کیسز کی شرح میں 1995 کے بعد دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔
امریکن کینسر سوسائٹی کی 2024 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرطان کی دیگر اقسام کے مقابلے میں 50 سال سے کم عمر مردوں میں colorectal کینسر سے سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں جبکہ خواتین میں ہلاکتوں کی شرح کے حوالے سے کینسر کی یہ قسم دوسرے نمبر پر ہے۔
20 سال قبل یہ سرطان کی یہ قسم اموات کی تعداد کے حوالے سے چوتھے نمبر پر تھی۔
جوان افراد میں کینسر کے پھیلاؤ میں اضافے کے باعث طبی ماہرین اور محققین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آخر یہ مرض اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
CUHK میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹر Ashley Cheng Chi-kin نے بتایا کہ 50 سال سے کم عمر افراد میں سرطان کی مختلف اقسام کے تیزی سے پھیلنے کا سلسلہ صرف امریکا تک محدود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایسا ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت کرنا آسان نہیں کہ آخر کینسر کے کیسز تیزی سے کیوں بڑھ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ محققین کی جانب سے کینسر کی وجوہات کو جاننے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک وجہ تو کینسر کی اسکریننگ زیادہ کرانا ہوسکتی ہے، جبکہ دیگر عناصر جیسے کسی فرد کی غذا، طرز زندگی، جسمانی وزن، ماحولیاتی اثرات اور جراثیم بھی ممکنہ طور پر اس حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں۔
یالے اسکول آف میڈیسن کی ایک پورٹ میں بتایا گیا کہ جوان افراد میں colorectal کینسر کی تشخیص سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کے خیال میں سست طرز زندگی (زیادہ وقت بیٹھ کر اسکرین کے سامنے گزارنا) اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ وقت کی ورزش سے بھی کینسر کی متعدد اقسام سے تحفظ مل سکتا ہے۔
اس حوالے سے 2016 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی طور پر متحرک افراد میں colon کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ 20 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ الٹرا پراسیس غذاؤں کے زیادہ استعمال سے کینسر کی تمام اقسام سے متاثر ہونے کا خطرہ 10 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ الٹرا پراسیس غذائیں تیاری کے دوران متعدد بار پراسیس کی جاتی ہیں اور ان میں نمک، چینی اور دیگر مصنوعی اجزا کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ صحت کے لیے مفید غذائی اجزا جیسے فائبر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔
الٹرا پراسیس غذاؤں میں ڈبل روٹی، فاسٹ فوڈز، مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز، میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ شامل ہیں۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں چینی کے زیادہ استعمال اور کینسر کے درمیان تعلق کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
ماہرین کے خیال میں چینی کے زیادہ استعمال سے انسولین بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور خون میں انسولین کی زیادہ مقدار سے کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
متعدد ماہرین کا کہنا تھا کہ چینی کے زیادہ استعمال سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور موٹاپے کے باعث چربی کے خلیات کا اجتماع بڑھ جاتا ہے جس سے ورم بڑھانے والے پروٹینز کا اخراج ہوتا ہے اور ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے۔
ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ جسم میں آنے والی ہر قسم کی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے اور طبی معائنہ کرانا چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔