09 جون ، 2024
آموں کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور ہر جگہ یہ پھل نظر آ رہا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانیوں کو آم بہت پسند ہیں اور اسے پھلوں کا بادشاہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
مگر کیا آموں کو کھانے سے قبل پانی سے دھونا چاہیے یا نہیں؟
ویسے تو آموں کا گودا چھلکے کے اندر چھپا ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے کھانے سے پہلے دھو لینا بہتر ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کے اوپری چھلکوں میں کیڑے مار ادویات اور گرد کے ذرات اکٹھے ہو سکتے ہیں تو بہتر ہے کہ انہیں کھانے سے قبل دھولیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ آم جلد پک کر خراب ہو سکتے ہیں تو ان میں بیکٹریا کی نشوونما ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، تو بہتر ہے کہ آم کو کاٹنے سے قبل اسے 5 منٹ تک پانی سے دھو لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آموں کو پانی میں گھنٹوں تک بھگو کر رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پھل کا چھلکا موٹا ہوتا ہے تو چند منٹ تک اسے دھونا ہی کافی ہوتا ہے۔
آموں میں قدرتی مٹھاس بہت زیادہ ہوتی ہےاور اسی وجہ سے ذیابیطس کے مریض فکرمند ہوتے ہیں کہ یہ مٹھاس بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھانے کا باعث نہ بن جائے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ذیابیطس سے محفوظ افراد روزانہ کتنے آم کھا سکتے ہیں؟
ویسے تو ذیابیطس کے مریض بھی اس پھل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جس کے لیے مقدار کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
مگر صحت مند افراد کے لیے بھی ضروی ہے کہ وہ اعتدال میں رہ کر اس پھل کا استعمال کریں کیونکہ اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس (گلوکوز، شکر، نشاستہ اور سلولوز جیسے کیمیائی مرکبات کا گروہ) جسم کے اندر شکر میں تبدیل ہوکر بلڈ گلوکوز کی سطح پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق آم میں قدرتی مٹھاس بہت زیادہ ہوتی ہے اور فائبر کی مقدار دیگر پھلوں سے کم ہوتی ہے تو بہتر ہے کہ صحت مند افراد ایک دن میں ڈیڑھ سے 2 کپ یا 330 گرام سے زیادہ آم کھانے سے گریز کریں۔
اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہیں تو دن بھر میں 2 سلائیس سے زیادہ مت کھائیں بلکہ 2 سلائیس کھانے کے بعد بھی دیکھیں کہ بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ تو نہیں ہوا اور اس کے بعد تعین کریں کہ آئندہ دنوں میں کتنی مقدار زیادہ بہتر رہے گی۔
واضح رہے کہ ایک آم سے جسم کو پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، فائبر، قدرتی مٹھاس، وٹامن سی، وٹامن بی 6، وٹامن اے، وٹامن ای، وٹامن K، کاپر، فولیٹ، پوٹاشیم، میگنیشم اور ریبوفلوین جیسے اجزا ملتے ہیں۔
آم میں موجود وٹامن سی مدافعتی نظام کو طاقتور بناتا ہے جبکہ جسم کو آئرن جذب کرنے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خلیات کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔