02 اگست ، 2024
قدیم مصر سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون ہزاروں برسوں سے پورا منہ کھولے ابدی نیند سو رہی ہے۔
اسکریمنگ ویمن کی عرفیت سے معروف یہ مصری خاتون ساڑھے 3 ہزارقبل ہلاک ہوئی تھی۔
اس ممی کو دریافت کیے جانے کے بعد ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر اس کے چہرے پر اتنا دہشت انگیز تاثر کیوں موجود ہے اور اب لگتا ہے کہ انہوں نے ممکنہ جواب تلاش کرلیا ہے۔
ماہرین کے خیال میں اس خاتون کی ہلاکت انتہائی تکلیف کے باعث ہوئی ہوگی۔
اس مصری ممی کو 1935 میں Senmut نامی مقبرے کے نیچے لکڑی کے تابوت میں دریافت کیا گیا تھا۔
Senmut قدیم مصر کی خاتون فرعون Hatshepsut کے عہد میں ماہر تعمیرات تھا اور اسکریمنگ ویمن کے ساتھ ماہرین نے Senmut کی ماں کا چیمبر بھی دریافت کیا تھا۔
قاہرہ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر سحر سلیم کے مطابق اسکریمنگ ویمن کا نام تو معلوم نہیں مگر ممکنہ طور پر وہ Senmut کی کوئی قریبی رشتے دار تھی۔
ماہرین نے کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (سی ٹی) اسکیننگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے خاتون کی ممی کا ورچوئل جائزہ لیا جبکہ ایکسرے اور دیگر تکنیکس کے ذریعے اس کی کھال، بال اور لمبی سیاہ وگ کا تجزیہ کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ اس خاتون کا قد 5 فٹ تھا اور موت کے وقت اس کی عمر 48 سال کے قریب تھی جبکہ اسے جوڑوں کی معمولی تکلیف کا سامنا تھا۔
مگر محققین نے حنوط کیے جانے کے عمل کے دوران کی جانے والی سرجری کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں کیے اور اس کے تمام اعضا تاحال جسم کے اندر موجود ہیں۔
پروفیسر سحر سلیم نے بتایا کہ 'اس دریافت نے مجھے حیران کردیا کیونکہ اس عہد میں لاشوں کو حنوط کرنے کے لیے دل کے سوا تمام اعضا کو نکال دیا جاتا تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر اس خاتون کو حنوط کرتے ہوئے مہنگی درآمدی اجزا کو استعمال کیا گیا۔
ماہرین کے تجزیے میں juniper اور مہندی کے آثار کو خاتون کے بالوں میں دریافت کیا گیا جبکہ اس کی وگ پر بھی متعدد منرلز کو دریافت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے نہ صرف حنوط کے عمل، وگ کی تیاری اور مختلف منرلز کے استعمال کا عندیہ ملتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کھلا منہ حنوط کرنے والے ماہرین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے جو منہ کو بند کرنا بھول گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ خاتون کے چہرے پر موجود تاثر تکلیف دہ موت یا جذباتی تناؤ اور تکلیف سے موت کے دوران چہرہ منجمد ہونے کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حنوط کرنے والے افراد منہ بند کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ دہشت انگیز تاثر اب بھی برقرار ہے۔
البتہ وہ ماہرین موت کی حتمی وجہ کا تعین نہیں کرسکے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل فرنٹیئرز ان میڈیسن میں شائع ہوئے۔