14 نومبر ، 2024
ذیابیطس ایسا دائمی اور سنگین مرض ہے جس کا سامنا ہر 10 میں سے ایک فرد کو ہوتا ہے اور اس کے کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
زیادہ تر افراد کو ذیابیطس ٹائپ 2 کا سامنا ہوتا ہے جو اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 سے 95 فیصد کیسز میں اس کی تشخیص ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر ذیابیطس ٹائپ 1 اور حاملہ خواتین میں ذیابیطس اس مرض کی دیگر اہم اقسام ہیں۔
ذیابیطس کی تمام اقسام میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ خون میں شکر کی مقدار بڑھ جانا جسے بلڈ شوگر کہا جاتا ہے۔
ہمارا جسم بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے انسولین تیار کرتا ہے۔
لبلبے میں بننے والا یہ ہارمون خون میں موجود گلوکوز خلیات کے اندر داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یعنی جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو وہ غذا گلوکوز میں تبدیل ہوتی ہے جس کے ردعمل میں لبلبے سے انسولین ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جو خلیات کے دروازے کھول کر گلوکوز کو توانائی میں بدلتا ہے۔
ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس دونوں کی ابتدائی اہم علامات ایک جیسی ہوتی ہیں۔
ہر سال 14 نومبر کو ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس دائمی مرض کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہے۔
اس موقع پر آپ بھی جانیں کہ اس مرض کی ابتدائی نشانیاں یا علامات کونسی ہوتی ہیں۔
ہمارا جسم خوراک کو گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے جسے ہمارے خلیات توانائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مگر ہمارے خلیات کو اس کام کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے، جب ہمارا جسم انسولین نہیں بنا پاتا یا ناکافی مقدار میں بناتا ہے یا خلیات انسولین کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو پھر گلوکوز خلیات میں داخل نہیں ہوپاتا اور انہیں توانائی نہیں ملتی۔
اس کے نتیجے میں ہمیں معمول سے زیادہ بھوک لگنے لگتی ہے کیونکہ ہمارا جسم توانائی برقرار رکھنے کے لیے خوراک کو طلب کر رہا ہوتا ہے۔
انسولین اور گلوکوز کی کمی کے باعث ہمیں زیادہ تھکاوٹ اور نقاہت محسوس ہوتی ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ انسولین وہ ہارمون ہے جو خلیات تک توانائی کے ذرائع پہنچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
جب انسولین کے افعال متاثر ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ تھکاوٹ اور نقاہت کی شکل میں نکلتا ہے۔
ایک فرد عموماً 24 گھنٹوں میں 4 سے 7 بار پیشاب کرتا ہے مگر ذیابیطس کے شکار افراد میں یہ تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، مگر کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جسم میں بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہو تو گردوں کے لیے خون میں موجود اضافی شکر پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔
بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہونے پر ہمارا جسم اسے پیشاب کے ذریعے خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے باعث بار بار پیشاب آنے لگتا ہے۔
چونکہ ذیابیطس کے مریض بہت زیادہ پیشاب کرتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں پیاس بھی بہت زیادہ لگتی ہے۔
اسی طرح بلڈ شوگر کی سطح بڑھنے پر جسم شکر کو خارج کرنے کے لیے ٹشوز سے پانی کو کھینچتا ہے۔
پانی سے جسمانی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور کچرے کو خارج کرنے میں مدد ملتی ہے، مگر جب ٹشوز سے پانی کو کھینچا جاتا ہے تو دماغ ہمیں ہر وقت پیاس لگنے کا سگنل بھیجتا رہتا ہے۔
چونکہ ہمارا جسم سیال کو پیشاب کی صورت میں زیادہ خارج کر رہا ہوتا ہے تو دیگر اعضا کی نمی بھی گھٹ جاتی ہے۔
ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور منہ بہت زیادہ خشک محسوس ہونے لگتا ہے۔
منہ کی طرح ہماری جِلد کو بھی ڈی ہائیڈریشن کے باعث منفی اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔
جِلد خشک ہونے کے باعث خارش کی شکایت بھی بڑھ جاتی ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں میں بینائی کے مسائل عام ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم آنکھوں سے بھی سیال کو کھینچ لیتا ہے جبکہ خون میں اضافی شکر سے آنکھوں کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جو طویل المعیاد بنیادوں پر بینائی کو کمزور کرتا ہے۔
اگر ہمارا جسم کو خوراک سے توانائی حاصل نہ ہو تو وہ مسلز اور چربی کو توانائی کے لیے جلانے لگتا ہے۔
اس کے نتیجے میں جسمانی وزن میں اس وقت بھی کمی آجاتی ہے جب آپ معمول کے مطابق غذا استعمال کر رہے ہوں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔