راشد سعید/شہاب عمر
بارہ مئی کےسانحہ مستونگ کو چند روز ہوگئےمگر کبھی علمی،ادبی اورسیاسی حوالوں اور زعفران کے باغات کی وجہ سے مشہور اس شہرکی فضاء اب بھی سوگوار ہے۔
بازار کھل گئے ،کاروباری سرگرمیاں بھی کسی حد تک معمول پر آگئیں مگر اب بھی شہر کے باسی غم کی کیفیت میں ہیں اور ماضی میں بیش قیمت زعفران کی خوشبوسے معطر رہنےوالے مستونگ کی فضا میں اب خون کی بو رچی ہوئی ہے۔ شہر’شہر بےاماں‘ دکھائی دےرہاہے۔
زخمیوں میں جمعیت علمائے اسلام کے اہم رہنماء اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفورحیدری بھی شامل ہیں جبکہ جاں بحق افراد میں مولاناصاحب کےپرسنل اسٹاف افسر افتخارمغل اوردیگر کئی شخصیات شامل تھیں۔
شہداء میں زیادہ ترنوجوان اورطالب علم تھے۔جغرافیائی لحاظ سے دیکھاجائے تو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریبا پچاس کلو میٹر کی دوری پر واقع مستونگ تقریبادو لاکھ کی آبادی کاشہر اورکوئٹہ سےکراچی اور تفتان کی گزرگاہ ہے۔
مگر گزشتہ دس سال میں مختلف اوقات میں ہونےوالے دہشت گردی کےچار بڑے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ وبم دھماکوں کےچھوٹےبڑے کئی واقعات نےاس شہرمیں امن اوربھائی چارہ کی فضا کو سبوتاژکردیا۔ رہی سہی کثر دہشت گردی کےحالیہ واقعہ نےپوری کردی۔
جی ہاں، سانحے کےشہداء میں سے اکیس کاتعلق اسی شہرسے تھا ۔ان میں سےسات حفاظ قرآن بھی تھے۔سب کی عمریں دس سے پچیس سال کےدرمیان تھیں۔انہی میں سےایک جواں سال میرتنویرملازئی بھی تھا۔وہ گریجویشن کےبعد روزگارکی تلاش میں تھا۔وہ سماجی کاموں میں پیش پیش رہتا، فارغ وقت میں اسنوکر اس کامشغلہ تھا،اس کی جدائی کاغم اس کےبوڑھےوالدین ، بھائیوں اورعزیز و اقارب کےلئے ناگہانی آفت سے کم نہیں ۔
تنویر ملازئی کےعلاوہ مستونگ کے طالب علم عمران، عبدالغفاراوردیگر بھی اس سانحہ میں زندگی کی بازی ہارگئے تھے۔ان سب کےاہل خانہ بھی اس بڑے غم پر نوحہ کناں ہیں ۔ان میں خودکش حملےکانشانہ بننےوالے مدرسہ کےمہتمم کے حافظ قرآن بیٹےسمیت خاندان کےتین افراد بھی شامل ہیں۔