LIVE

نشان حیدر ہاکی ٹورنامنٹ کی خوبیوں اور خامیوں پر ایک نظر

عتیق الرحمٰن
October 14, 2017
 

نشان حیدر ہاکی ٹورنامنٹ کے انعقاد پر پاکستان ہاکی فیڈریشن توبہت خوش رہی لیکن وہ اس ایونٹ میں کھیلنے والے سو سے زائد مقامی کھلاڑیوں کو زیادہ خوش نہ کرسکی۔ 

اس ٹورنامنٹ میں جہاں بہت سی اچھے اقدامات ہوئے وہیں کچھ ایسے فیصلے بھی ہوئے جنہوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا۔ آئیے دس روز تک جاری رہنے والے اس ایونٹ کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر ڈالتے ہی۔

اس ایونٹ کی سب سے بڑی کامیابی تھی غیر ملکی گول کیپرز کی شرکت تھی جن کی آمد سے ملک میں کھیلوں کے انعقاد پر لگے سیکیورٹی خدشات دور ہوئے اور ہاکی کے میدان میں بھی ایک طویل عرصے کے بعد غیر ملکی کھلاڑی ایکشن میں نظر آئے۔

غیرملکی کھلاڑیوں کا معیار

ان کھلاڑیوں میں آسٹریلیا کے 7 اور ارجنٹائن کے 4 گول کیپرز شامل تھے، جن کو گیارہ مقامی ٹیموں میں شامل کیا گیا۔ سوائے ایک دو کے باقی گول کیپرز غیر ملکی تو تھے لیکن ان کا کھیل معیاری ہرگز نہیں تھا۔ یہ وہ گول کیپرز تھے جو اپنے ممالک میں کلب ہاکی کھیلتے ہیں لیکن کبھی اپنے ملکی ٹیم کی نمائندگی نہیں کر سکے، اسی وجہ سے ان کا شمار نامور گول کیپرز میں نہیں کیا جاتا۔ پنالٹی شوٹ آوٹ اور میچز میں مقامی کھلاڑیوں نے ان پر باآسانی گول کئے جس سے ان کی کارکردگی اور کھیل کی قلعی کھل گئی۔

بظاہر اسی لئے فیڈریشن نے ان گول کیپرز کی پریس کانفرنس بھی نہیں کرائی کہ کہیں میڈیا کو ان کی پروفائل کا پتا نہ چل جائے، لیکن اس کے باوجود ان کھلاڑیوں کا پاکستان آنا اور امن کا پیغام دینا قابل ستائش ہے۔ اگر آج غیرمعروف کھلاڑی آئے ہیں تو کل نامور کھلاڑی بھی ضرور ایکشن میں نظر آئیں گے۔

عبدالستار ہاکی کلب میں رونق لوٹ آئی

اس ایونٹ کی دوسری بڑی کامیابی تھی کہ عبدالستار ہاکی کلب دس روز تک روشن رہا۔ کئی سالوں بعد ہاکی کلب کی فلڈ لائٹس صرف ایک دو میچز کیلئے نہیں بلکہ پورے ٹورنامنٹ کیلئے روشن کی گئیں یوں ہاکی کا میدان دس روز تک جگ مگ کرتا رہا اور ہاکی کلب کی رونقین لوٹتی نظر آئیں۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن اس ایونٹ کی تشہیر درست انداز میں کرتی تو تماشائیوں کی تعداد بھی اسٹیڈیم میں نظر آتی، جو کہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ افتتاحی اور اختتامی تقریب میں اسکولوں کے بچوں کو بٹھا کہ انکلوژر کو بھرا گیا۔

پروموشن سے ہاکی ہیروز غائب

دوسری جانب ہاکی فیڈریشن نے ایونٹ کی پرموشن کیلئے ہاکی کے سابق نامور کھلاڑیوں کے بجائے کرکٹرز کے ویڈیو پیغامات جاری کئے۔ کامران اکمل، سہیل تنویر اور عمر گل سمیت کئی کرکٹرز ہاکی کی تشہیر کرتے نظر آئے جو کہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن اسی کھیل میں پاکستان کے ہیرو اصلاح الدن، سمیع اللہ، حنیف خان، حسن سردار سے بھی ویڈیو پیغامات لے لئے جاتے تو کوئی برائی نہیں تھی۔

’مقامی کھلاڑیوں کو کچھ نہیں ملا‘

اس ایونٹ کے لئے پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سو سے زائد مقامی کھلاڑیوں کو گیارہ ٹیموں میں کھیلنے کا موقع دیا۔ یقیناً اس ایونٹ سے نیا ٹیلنٹ ملا ہوگا، لیکن ایونٹ سے مقامی کھلاڑیوں کو کچھ نہیں ملا۔

کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ انہیں کہا گیا تھا کہ انہیں ڈیلی الاونس ملے گا لیکن سوائے ٹرین کے ٹکٹ کے انہیں کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ ٹیموں کو ٹریننگ کے لئے گیندیں تک دستیاب نہیں تھیں۔

کوچز، امپائر اور آفیشلز منہ دیکھتے رہ گئے

اسی طرح مقامی کوچز بھی خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ گئے اور انہیں جہاز کے صرف ایک طرف کے ٹکٹ کے پیسے دیئے گئے۔ امپائرز اور ٹیکنکل آفیشلز بھی یہی شکایت کرتے نظر آئے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اس ایونٹ کے انتظامات کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کو دینے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھے جس کی وجہ سے اختتامی تقریب میں بدنظمی بھی دیکھنے کو ملی۔

ٹرافیاں کم پڑ گئیں

اسی طرح ٹیموں کو دینے کیلئے ٹرافیاں بھی کم پڑ گئیں۔ تصاویر بنانے کے لئے ٹیموں سے ٹرافیاں واپس لے کر دوسری ٹیم کو دی گئیں اور تصاویر بنوانے کے بعد پھر واپس کردی گئیں۔