LIVE

مقبوضہ کشمیر میں 8 سالہ بچی سے زیادتی و قتل، مودی نے خاموشی توڑ دی

ویب ڈیسک
April 14, 2018
 

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی—۔فائل فوٹو/ پی ٹی آئی

نئی دہلی: بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں 8 سالہ بچی سے زیادتی اور بہیمانہ قتل اور اترپردیش میں ایک لڑکی کے ریپ میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) رکن کے ملوث ہونے کے معاملے پر خاموشی توڑ دی۔

نئی دہلی میں ایک تقریب کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نے کہا، 'میں قوم کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کوئی مجرم بچ نہیں پائے گا اور ہماری بیٹیوں کو انصاف ملے گا'۔

نریندر مودی نے کہا، 'یہ ہمارے معاشرے کی ناکامی ہے اور مہذب ہونے کے دعویدار کسی بھی معاشرے کو یہ زیب نہیں دیتا، ہمیں اس پر شرمندگی ہے اور ہمیں بحیثیت ایک معاشرہ اس معاملے سے نمٹنا چاہیے۔'

نریندر مودی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بچیوں سے زیادتی کے 2 کیسز پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور  واقعے کے خلاف ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آواز بلند کر رہے ہیں۔

رواں برس 17 جنوری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے کٹھوا میں ایک 8 سالہ بچی کو اجتماعی زیادتی کے بعد بہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا تھا۔

گذشتہ دنوں بھارتی عدالت میں پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ بکروال کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مذکورہ بچی سے زیادتی اور قتل، اس مسلم کمیونٹی کو علاقے سے نکالنے کی ایک سازش اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

نور فاطمہ سے زیادتی اور قتل کے واقعے کا مقدمہ ایک مقامی مندر کے نگراں سنجی رام، اس کے بیٹے اور پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

مذکورہ گرفتار افراد کی حمایت میں بی جے پی کے دو ارکان وزیر مملکت برائے جنگلات لال سنگھ اور وزیر کامرس اینڈ انڈسٹریز چندرپرکاش نے ایک ریلی بھی نکالی، لیکن بعدازاں انہیں استعفیٰ دینا پڑگیا۔

دوسری جانب بھارتی ریاست اترپریش میں ایک بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگار کو بھی ایک لڑکی سے زیادتی کے الزامات کا سامنا ہے۔

مذکورہ رکن اسمبلی سے گذشتہ روز پولیس نے پوچھ گچھ بھی کی، تاہم انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب کلدیپ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کا موکل بے گناہ ہے اور یہ کیس ان کے سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔

واضح رہے کہ 2016 میں بھارت میں ریپ کے 40 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ہزاروں کیسز چونکہ رپورٹ نہیں ہوتے، لہذا ان کا ڈیٹا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔