LIVE

سندھ پولیس ایکٹ اور اختیارات کی جنگ

حامد شیخ
May 23, 2019
 

— 

سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی میں جنرل پرویز مشرف کے پولیس آرڈر 2002 میں ترامیم کرکے اسے منظور کر لیا جسے اب منظوری کے لیے گورنر سندھ کے پاس بھیجا جائے گا جس کےبعد یہ صوبے میں نافذ ہوجائے گا ۔اس بل پر آئی جی سندھ کلیم امام نے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے سول سوسائٹی کی جانب سے ہائی کورٹ میں کیس زیرسماعت ہے سندھ ہائی کورٹ اس قانون سازی پر کیا فیصلہ کرتی ہے وہ آنے والا وقت بتائے گا ۔

آئی جی سندھ کے بعد ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام سرور جمالی نے نئے پولیس قانون پر تحفظات کا اظہارکیا ہے ۔ ادارے نیوٹرل ہوں دائیں بائیں سے دباؤ نہ آئے۔حکومت کا سندھ اسمبلی میں قانون سازی کرنا حق ہے تاہم دیکھنا ہے کہ عدالت اس قانون سازی کے عمل کو کس طرح دیکھتی ہے یہ قانون سازی آئین اور قانون کے مطابق ہے یا نہیں ۔

حیدرآباد میں ایس ایس پی آفس میں شکایت سیل کے افتتاح کے موقع پر جیو نیوز کے سوال کے جواب میں گریڈ 21 کے افسر ایڈیشنل آئی جی سندھ نےکہا کہ سینئر افسران کی تقرریاں اور تبادلے ہمیشہ حکومت کرتی آئی ہے ۔سینئر پولیس افسران کے تبادلے اور تقرریاں کرنے کے اختیارات 1861 سے 1947 تک حکومتوں کے پاس رہا ہے اور موجودہ حکومت کے پاس بھی سینئر افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات تھے۔

ایڈیشنل آئی جی کہتے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ میں اے ڈی خواجہ کیس میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سینئر افسران کی تقرری کے اختیارات حکومت کے پاس نہیں بلکہ محکمے کے ہونا چاہییں اور یہ اختیارات اب آئی جی سندھ کے پاس ہیں اور میری تقرری بھی آئی جی سندھ نے ہی کی ہے کسی سیاسی حکومت نے نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کے خلاف ہائی کورٹ میں سول سوسائٹی وکلاء نے بہت بحث کی ہے لیکن عدالت اگر اس قانون سازی کو آئین اور قانون کے مطابق نہیں پائے گی تو رد بھی کرسکتی ہے ۔

ایڈیشنل آئی جی نے پولیس آرڈر میں وزیراعلی کی سینئر پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کو اختیارات دینے کے حوالے سے دبے الفاظوں میں تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ بحیثیت پبلک سرونٹ میری رائے یہ ہے کہ ادارے اپنی کارکردگی دکھائیں اور ان پر کوئی دباؤ نہیں آنا چاہیے۔

سندھ میں پولیس آرڈر 2002ء سے متعلق قانون پر آئی جی سندھ نے بھی سندھ اسمبلی میں پاس کردہ پولیس آرڈر 2002ء پر اپنے تحفظات سے سندھ حکومت کوبذریعہ خط آگاہ کیا ہے۔ یہ خط پولیس آرڈر 2002ء کی بحالی کا بل سندھ اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے لکھا گیا تھا۔ آئی جی کلیم امام نے خط کے ذریعے بل میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ یہ درخواست بھی کی تھی کہ اسے اسمبلی میں پیش نہ کیا جائے۔

اس قانون میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ضلعی سطح پر سیفٹی کمیشن میں ارکان اسمبلی کی موجودگی ادارے کو سیاسی بنا دے گی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بل میں ترامیم کی جائیں۔ حالیہ ترامیم میں اعلیٰ عدالتوں کے حکم کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

عدالتی حکم کے مطابق پولیس سربراہ کے پاس مکمل اختیارات ہونا چاہئیں جس میں عمل دخل نہ ہو۔ آئی جی کے پاس اختیارات نہ ہونے سے محکمے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔

سیکرٹری داخلہ نے آئی جی کے خط پر ردعمل میں کہا کہ خط موصول ہو گیا تھا لیکن سندھ اسمبلی سے قانون کی منظوری کے بعد خط کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور بل قانون بن چکا اب خط کا معاملہ ختم ہو گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے پولیس قانون میں وزیراعلی سندھ کو تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات دراصل سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت کے مترادف ہے ۔وزیراعلی سندھ کو سینئر پولیس افسران کی تقرری کے اختیارات دینے سے پولیس ایک بار پھر سیاست کا شکار ہو جائے گی ۔

سیاسی مداخلت کی بنیاد پر سابق آئی جی سندھ  اے ڈی خواجہ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آئی جی سندھ کو سینئر پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات دیے تھے۔ وزیراعلی سندھ کی جانب سے ایسے پولیس افسران کی اہم اضلاع میں تقرریوں کے احکامات آئی جی سندھ کو دیئے گئے تھے جو اچھی شہرت کے حامل افسران نہیں تھے اور یہ ہی وزیراعلی اور آئی جی سندھ کے اختیارات کی سب سے بڑی جنگ ہے۔