LIVE

2014 کے دھرنے اور آزادی مارچ میں یکسانیت اور فرق

طارق بٹ
October 27, 2019
 

فوٹو: فائل

2014ء کے دھرنے اور آزادی مارچ میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے تاہم کچھ فرق بھی ہے۔ موجودہ حکومت نے مذاکرات کے لیے ٹیم تشکیل دی ہے‘ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔

آزادی مارچ روکنے کے لیے عمران خان کی حکومت جو کوششیں کررہی ہے اس میں اور 2014 میں نواز شریف حکومت نے دھرنے روکنے کے لیے جو کوششیں کی تھیں اس میں واضح فرق نمایاں ہے۔

ایک فرق تو یہ ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو کہ اپوزیشن جماعتوں کے سینئر رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور مکمل کرچکی ہے۔

جب کہ 2014دھرنوں میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا بلکہ صرف اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس ضمن میں کوشش کی تھی۔

تاہم اب اس بات کا علم ہوا ہے کہ احسن اقبال جو کہ نواز شریف کی کابینہ میں وزیر تھے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ اگست، 2014 سے بہت پہلے اس وقت کے وزیر اعظم نے بھی مارچ میں عمران خان سے ان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔جس کا مقصد پی ٹی آئی چیئرمین کے موقف میں نرمی لانا تھا۔

اس موقع پر چوہدری نثار بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔چوہدری نثار اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک سے بھی رابطے میں تھے۔ابتدا میں اس وقت کے اسپیکر سردار ایاز صادق کا نام مذاکرات کے لیے لیا گیا تھا، تاہم ان کا نام نظر انداز کردیا گیا۔مقتدر حلقے اس وقت حکومت کیخلاف تھے لیکن آج کی حکومت کے ساتھ ہیں۔ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت نے باضابطہ طور پر اپنی ٹیم تشکیل دی ہے۔

اس سے قبل حکومتی رہنما ، اپوزیشن رہنمائوں پر سخت تنقید کررہے تھے۔مارچ کے آغاز سے صرف دو روز قبل حکومتی ٹیم نے اپوزیشن کے ساتھ واحد سیشن منعقد کیا جو ڈیڈ لاک کی صورت میں ختم ہوا۔

تاہم، پانچ سال قبل نواز شریف حکومت نے اور موجودہ حکومت نے دھرنے کا مقام تبدیل کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ کافی حد تک ایک جیسی ہی ہیں اور اس میں صرف کردار ہی تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے بھی یہی جواز بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو اندرون اور بیرون محاذ پر سخت مشکلات کا سامنا ہے اور اب بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ پہلے بھی احتجاج کرنے والوں نے حکومت کی بات نہیں مانی تھی اور اب بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔

البتہ ایک فرق یہ بھی ہے کہ 2014 دھرنوں میں پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی اپنی سیٹوں سے مستعفی ہوگئے تھےلیکن اس مرتبہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

2014 میں حکومت اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان دھرنے کے مقام کے تعین کے حوالے سے سخت اختلافات سامنے آئے تھے۔ اس وقت حکومت نے احتجاج کرنے والوں سے کہا تھا کہ وہ پریڈ گرائونڈ، ایف۔9پارک یا کسی دوسری جگہ پر احتجاج کریں، جس کے بعد وہ زیرو پوائنٹ پر متفق ہوگئے تھے۔لیکن احتجاج کرنے والے ڈی چوک تک پہنچ گئے تھے اور راستے پر تمام رکاوٹیں عبور کرلی تھیں۔

موجودہ حکومت بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ کسی صورت بھی ڈی چوک پر آزادی مارچ کی اجازت نہیں دے گی۔

ایک یکسانیت یہ بھی ہے کہ 2014 میں سیکڑوں کنٹینر اسلام آباد اور راولپنڈی لائے گئے تھے اور اب بھی بڑے پیمانے پر ایسا ہورہا ہے، جو کہ تاجروں اور کاروباری افراد پر منفی اثرات چھوڑ رہا ہے۔

جمعے کی رات کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شریک ایک رکن نے دی نیوز کو بتایا کہ حکومتی ٹیم کے دوارکان نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے پڑھ کر سنائے، جس کے مطابق ڈی چوک پر کسی بھی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔

تاہم انہیں اپوزیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ پی ٹی آئی ان کا حوالہ نہیں دے سکتی کیوں کہ وہ ان ججوں کو قبول ہی نہیں کرتے ہیں جنہوں نے یہ فیصلے سنائے۔حکومت ان میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرچکی ہے جب کہ شوکت صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے نکالا جاچکا ہے۔

شرکاء کا کہنا تھا کہ قائم مقام صدر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جو کہ حکومتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ خاصی مثبت سوچ کے حامل ہیں اور وہ حل نکالنا چاہتے ہیں۔باضابطہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومتی ٹیم نے ہفتے کے روز بھی مخالفین سے رابطہ کیا تھا۔ اس وقت اہم تنازعہ احتجاج کی جگہ کا تعین ہے۔