LIVE

نواز شریف کو کیا کرنا چاہئے

حذیفہ رحمان
September 12, 2022
 

سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1992ءمیں مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی تھی۔ ان تیس برسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلم لیگ ن مرکزی حکومت میں ہو اور نواز شریف حکومت سازی کا حصہ نہ ہوں۔ 2008ءمیں جب مسلم لیگ ن مرکز میں پیپلزپارٹی کی کابینہ میں شامل ہوئی تھی، تب بھی نوازشریف پاکستان میں موجود تھے اور تمام اہم فیصلے کرتے تھے۔

 اسی طرح 2017ء میں بھی وزیراعظم ہاؤس سے عدالتی بے دخلی کے بعد رائیونڈ میں بیٹھ کر معاملات حکومت پر نظر رکھتے تھے۔ آج مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی وفاق میں حکومت کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں۔اگر وفاقی حکومت کی کارکردگی کی بات کریں تو رپورٹس کچھ اچھی نہیں ہیں۔

مسلم لیگ ن کی پی ڈی ایم جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ اسے تمام اداروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ مگر حیرانی ہوتی ہے کہ نوازشریف اور اسحاق ڈار کی واپسی کے معاملے پر وہ سپورٹ کہاں چلی جاتی ہے؟ ایسی صورتحال میں تو دو ہی گمان کئے جاسکتے ہیں۔ یا تو مسلم لیگ ن کی پاکستان میں موجود قیادت نوازشریف سے مخلص نہیں ہے یا پھر مسلم لیگ ن سے عدم اعتماد کرانے والے ’’دوست‘‘ان سے مخلص نہیں ہیں۔ تیسری کوئی بھی صور ت نہیں ہے۔

نوازشریف آج بھی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ پنجاب کی پارلیمانی سیاست میں نوازشریف کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ دو طرح کے سیاستدانوں کو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ ایک وہ جس نے نوازشریف کو چھوڑ دیا اور دوسرا وہ جسے نوازشریف نے چھوڑ دیا۔حامد ناصر چٹھہ، ذوالفقار کھوسہ سمیت متعدد ایسے نام ہیں، جن کے بارے میں تصور تھا کہ ان کے بغیر پاکستان کی سیاست ادھوری ہے۔ مگر آج ان کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے۔ اگر پی ڈی ایم کو سپورٹ کرنے والے" دوست ـ‘‘واقعی اس اتحادی حکومت کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اسحاق ڈار کے وزیرخزانہ بننے اور نوازشریف کی عزت و آبرو سے وطن واپسی میں کونسی حکمت آڑے آجاتی ہے؟

 نوازشریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر نہ بھی فائز ہوں مگر پاکستان کے تمام بااثر حلقے جانتے ہیں کہ رائیونڈ میں بیٹھا ہوا نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نوازشریف سے زیادہ موثر ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا ووٹر آج بھی نوازشریف کے نام پر ووٹ دیتا ہے۔ پنجاب کا ایک عام آدمی سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ ن نوازشریف ہے اور نوازشریف مسلم لیگ ن ہیں۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔ کیونکہ لیڈر کا متبال اس کا نظریہ ہوتا ہے۔

 لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ پانچ ماہ سے مسلم لیگ ن وزارت عظمیٰ، وزرات داخلہ اور وزارت قانون جیسی اہم وزارتوں پر براجمان ہے۔آئندہ انتخابات سر پر آچکے ہیں۔کارکردگی پر بات نہ ہی کروں تو بہتر ہے۔جس شخص کے نام پر آپ نے عام انتخابات میں ووٹ لینے ہیں،اس کی واپسی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیںکئے جاسکے۔اسحاق ڈار کی قابلیت سے ہر شخص واقف ہے۔اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے فیصلہ ساز بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں مگر انہیں صرف اس لئے پاکستان آنے کی اجازت نہیں مل سکی کہ نوازشریف کی خواہش ہے کہ اسحاق ڈار وزیرخزانہ بن کر معیشت ٹھیک کریں۔آج عمران خان کی عدلیہ اور فوج سے متعلق متنازع تقاریر کے بعدادارے جس صورتحال سے دوچار ہیں،اس سے مقبول لیڈر ہی انکو نکال سکتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کونسے مشیران ہیں جواسحاق ڈار سے صرف اسلئے خوف زدہ ہیں کہ کہیں وہ ڈالر کو 180سے نیچے نہ لے آئے۔

کہیں اسحاق ڈار کے آنے سے معیشت بہترنہ ہوجائے۔اسی طرح نوازشریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن مزید مقبول نہ ہوجائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عدم اعتماد کے بعد پٹرول و مہنگائی بم گرانے سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک پر جوڈینٹ پڑا ہے کہیں نوازشریف کی واپسی سے وہ کور نہ ہوجائے۔بہرحال اگر اس ملک کے فیصلہ سازمسلم لیگ ن سے مخلص ہیں تو انہیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ نوازشریف کے بغیر مسلم لیگ ن مکمل بے جان ہے۔آج بھی ووٹ بینک صرف اور صرف نواز شریف کا ہے۔نوازشریف کی ٹکٹ کے بغیر مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔اسی طرح اگر معیشت کو اپنےپائوں پر کھڑا کرنا ہے تو اسحاق ڈار کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

جبکہ میاں نوازشریف کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی جماعت کی از سر نو صف بندی کریں۔جن مشیران نے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران یہ فیصلے کروائے ہیں،ان کا تعین ضرور کریں۔پنجاب میں اپنی جماعت کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے حوالے مت کریں جنہیں یہ تک نہیں معلوم کہ انہوں نے آخری الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑا تھا؟جو لوگ بے نظیر بھٹو شہید کے نہیں ہوسکے وہ بھلا آپ سے وفا کیسے کرسکتے ہیں؟میاں صاحب! وفا بندوں میں نہیں بلکہ وفا خون میں ہوتی ہے۔آپ کی اس جماعت پر چالیس سال کی انویسٹمنٹ ہے۔آپ نے یہاں تک پہنچنے میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ایک ایسا سفر جس میں کلثوم نواز بھی کھو گئیں۔آج آپ کو مقبول فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے فیصلے جن کی مسلم لیگ ن متقاضی ہے۔وگرنہ اس بزم سے تو ہم سب کو چلے ہی جانا ہے۔

کچھ ایسے بھی نکلیں گے اس بزم سے جن کو

تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے