جب اسلام آباد کی سرد اور خوبصورت فضاؤں کو خیر باد کہا اور لاہور کی بس میں سوار ہوئی تو یہ سوچ کر مایوسی ہو رہی تھی کہ زندہ دلوں کے شہر میں اسموگ ہماری منتظر ہو گی۔
مگر ہماری آمد سے قبل بارش نے لاہور کی فضاؤں کو ایسا دھو دیا تھا کہ بقول انور مسعود 'اَن بیان ایبل' خوبصورتی نے اس شہر کا نقشہ میرے ذہن میں یکسر تبدیل کر دیا۔
کچھ وقت لاہور میں گزارنے کے بعد مجھے اور میری دوست کو اچانک کرتارپور کا رخ کرنے کی سوجھی۔ دودھ جیسے سفید رنگ اور سنگ مرمر سے مزین کرتارپور مجھے اتنا متاثر کرتا تھا کہ اکثر سوچتی تھی کہ کاش وہاں جانے کا موقع ملے۔
اپنی حسرت کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہم دونوں نے کرتارپور کی راہ لی۔ لڑکیاں ہونے اور راستے سے انجان ہونے کی وجہ سے بارگیننگ ہمارے بس کی بات نہیں تھی اس لیے ہم نے لاہور سے ہی 6 ہزار روپے میں ایک گاڑی دن بھر کے لیے بک کی اور 130 کلومیٹر کا خوبصورت راستہ طے کر کے کرتار پور پہنچے۔
کرتار پور جتنا تصاویر میں خوبصورت دکھائی دیتا ہے، یہ حقیقت میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ ہم امید کر رہے تھے کہ ہمیں وہاں ہزاروں یاتری نظر آئیں گے کیونکہ کرتارپور راہداری کے قیام اور باباگرو نانک کے گوردوارے کا احاطہ وسیع کرنے کے بعد یہاں بھارت سے روزانہ 5 ہزار یاتریوں کے آنے کا انتظام ہے مگر بھارتی حکومت کی جانب سے مشکل طریقہ کار کے باعث روزانہ صرف 500 سے 600 سکھ یاتری ہی آتے ہیں جنہیں صبح 8 بجے آمد کے بعد دوپہر 3 بجے تک لوٹنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا، امریکا اور دیگر ممالک سے بھی سکھ یاتریوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے جن کی وہاں رہائش کا بھی انتظام ہے۔
لیکن وہاں آئے سکھ یاتریوں کے چہروں پر دکھائی دینے والے محبت اور عقیدت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
گوردوارے پر سکھ یاتری ماتھا ٹیکتے ہیں اور اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں جب کہ مسلم سنگت ان کے مزار پر حاضری دے کر بابا گرونانک سے عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔
کسی بھی پاکستانی کے لیے بھارت کے کسی باسی سے ملنا ایک خوشگوار اور منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ گوردوارے میں میری ملاقات جسوین کور سے ہوئی۔ اس کی خوش مزاجی اور محبت نے مجبور کر دیا کہ اس سے بات کی جائے۔
جسوین کور نے بتایا کہ ’ادھر آتے ہی دل کو جو خوشی اور پیار ملا ہے اس کے لیے کوئی الفاظ ہی نہیں ہیں، میں نے دیکھا کہ بابا گرو نانک صاحب کے گوردوارہ میں پاکستانی سنگت (یاتری) اور بھارتی سنگت آئی ہوئی ہے اور دونوں سنگتوں کے درمیان صرف بابا گرو نانک کے واسطے پیار ہے کیونکہ پاکستان کی عوام انہیں ولی مانتی ہے اور ہم انہیں اپنا گرو مانتے ہیں‘۔
جسوین کور دبئی میں رہتی ہیں مگر ان کا تعلق بھارتی شہر ممبئی سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ یہ مناظر ان کے لیے ناقابل یقین ہیں۔
جسوین نے گوردوارے میں داخل ہوتے ہوئے پیش آنے والا ایک واقعہ بھی ہمیں سنایا کہ کیوں وہ پاکستانی دوپٹہ اوڑھے ہوئے ہیں۔
جسوین نے بتایا کہ گوردوارہ میں داخل ہونے سے قبل ان کی ملاقات کچھ پاکستانی لڑکیوں سے ہوئی جس میں اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سوائے اک لکیر کے کوئی فرق موجود نہیں ہے۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے جسوین نے بتایا کہ "ان میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ مجھے آپ کا پھلکاری دوپٹہ بہت پسند ہے جس پر میں نے کہا تم لے لو۔۔۔۔ پھر ہم نے ایک دوسرے سے دوپٹے تبدیل کیے جسے میں اب اوڑھے ہوئے ہوں اور اب میں پاکستان کا دوپٹہ بھارت لے کر جانے والی ہوں اور انڈیا کا دوپٹہ پاکستان آ چکا ہے تو یہ ہے ہمارا پیار اور یہی ہے ہمارا بھائی چارہ‘۔
بابا گرو نانک صاحب کے گوردوارے میں صرف جسوین کور کی خوشی دیدنی نہیں تھی بلکہ تمام سکھوں کے چہرے خوشی سے کھلکھلا رہے تھے خاص طور پر بھارت سے آئے یاتری تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
گوردوارے میں موجود دیگر سکھ یاتریوں کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کر کے انہیں سب سے بڑی خوشی دی ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ ان کے شکرگزار رہیں گے۔
ہمیں وہاں گوردوارے میں فراہم کی گئی سہولیات اور صفائی کا انتظام بھی بہترین دکھائی دیا جس کا اعتراف مہمان یاتریوں نے بھی کیا۔
کرتارپور میں یاتریوں کے لیے میسر سہولیات اور انتظامات کے حوالے سے گوردوارہ میں موجود پاکستان سکھ پربندھک کمیٹی کے واحد رکن اندر جیت سنگھ نے بتایا کہ پہلے گوردوارہ چار ایکڑ پر محیط تھا لیکن پھر راہداری کے قیام کی غرض سے اس میں توسیع کی گئی، اب یہاں 5 ہزار یاتریوں کے آنے کا انتظام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں اب لنگر ہال میں بیک وقت ڈھائی ہزار افراد لنگر کھا سکتے ہیں جب کہ دو درشن دیوڑیاں بھی بنائی گئی ہیں اور ایک دیوان استھان ہے جسے ابھی فعال نہیں کیا گیا۔
اندر جیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ویسے تو سیکیورٹی سے لے کر یہاں سب انتظامات بہترین ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج صرف صفائی ہے جس کے لیے عملہ تو موجود ہے لیکن ابھی اس کی تعداد کم ہے۔
اندرجیت سنگھ سے بات چیت کرنے کے بعد جب میں بابا گرو نانک کے گوردوارے کے وسیع و عریض صحن کے احاطے میں آئی تو دبئی سے آئے ایک بزرگ سکھ یاتری میٹھا سنگھ سیڑھیوں پر بیٹھے گوردوارے کو تک رہے تھے۔
ان کی لمبی مونچھوں اور چہرے پر رعب سے لگنے والے ڈر کے باوجود میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھا کہ بابا جی آپ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ 1998 میں یہاں آ چکے ہیں۔
لیکن انہوں نے شکوہ کیا کہ گوردوارے کو پہلے سے بہت زیادہ تبدیل کر دیا گیا ہے اس لیے وہ یہاں بیٹھے اپنی یادیں تلاش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "بابا گرو نانک کی تعلیمات نے ہمیشہ شانتی (امن)، پیار اور بھائی چارگی کا درس دیا ہے، ہمارے درمیان خدا کے نام مختلف ہیں لیکن سب کا مالک صرف ایک ہے۔ میرے نزدیک یہ راہداری امن کی راہداری ہے، ایک دوسرے کا احساس کرنے کی راہداری ہے، چاہتا ہوں بس یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے اور سب ایک چھت تلے مل جل کے رہیں۔"