کورونا وائرس ایک عالمی وبا یا کسی کی سازش: حقیقت کیا ہے؟

دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کورونا کو ایک مفروضہ یا سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ ایسے بھی 'عظیم' لوگ موجود ہیں جو اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں

مبینہ طور پر چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی عالمی وبا کورونا وائرس کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم کورونا کی ہلاکت خیزیوں میں کوئی کمی نہیں آسکی ہے اور اب دنیا کو وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔

دنیا بھر میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کورونا کو ایک مفروضہ یا کسی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ ایسے بھی 'عظیم' لوگ موجود ہیں جو اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔

کورونا کی وبا کے آغاز سے ہی اس وائرس کے حوالے سے بہت سے سازشی نظریات اور افواہیں گردش کرر ہی ہیں، اس میں صرف پاکستانی ہی بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے رہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی وائرس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، ان میں سب سے توانا آواز بلاشبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے جو اسے شروع دن سے ہی 'چینی وائرس' کہہ رہے ہیں اور الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وائرس کا تعلق ووہان کی لیبارٹری سے ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کورونا وائرس کے حوالے سے کیا کیا سازشی نظریات اور من گھڑت کہانیاں جنم لے چکی ہیں۔ ہم نے انہیں 4 حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

*یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان نظریات کا درست ہونا بالکل بھی ضروری نہیں، ہوسکتا ہے ان میں کسی حد تک سچائی ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہوں، اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

پہلا حصہ: وائرس کس نے پھیلایا؟

1- وائرس چین کی لیب میں تیار ہوا

چینی آپتھامولوجسٹ اور وائرولوجسٹ ڈاکٹر لی مینگ یان نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس چین ہی کی ایک لیب میں تیار کیا گیا بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا کہ یہ وائرس چینی فوج کی ایک لیب میں فوج کی نگرانی میں تیار کیا گیا— فوٹو: فائل

چونکہ یہ وائرس چین سے شروع ہوا تھا لہٰذا امریکا سمیت دیگر ممالک، جو چین سے مختلف شعبوں میں مسابقت رکھتے ہیں، انہوں نے فوراً یہ مفروضہ اپنایا کہ شاید یہ چین ہی کی لیب میں تیار کیا گیا وائرس ہے جو غلطی سے باہر آگیا یا پھر جان بوجھ کر ان ممالک میں پھیلادیا گیا جو چین سے مختلف شعبوں میں مقابلہ کررہے ہیں۔

امریکا اور مغربی ممالک تو ایک طرف خود چین سے تعلق رکھنے والے بعض سائنسدانوں اور ڈاکٹرز نے بھی اس وائرس کو مشکوک قرار دیا اور اس کیخلاف آواز بھی اٹھائی۔

ان میں سب سے معروف چینی آپتھامولوجسٹ اور وائرولوجسٹ ڈاکٹر لی مینگ یان ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس چین ہی کی ایک لیب میں تیار کیا گیا بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا کہ یہ وائرس چینی فوج کی ایک لیب میں فوج کی نگرانی میں تیار کیا گیا۔

یان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی حکومت اور عالمی ادارہ صحت دسمبر میں ووہان میں کووڈ 19 کا پہلا کیس سامنے آنے سے قبل ہی کووڈ 19 کی موجودگی سے آگاہ تھے۔ یان چینی حکومت کے اس دعوے کو بھی مسترد کرتی ہیں کہ کورونا وائرس ووہان کی سمندری حیات کی مارکیٹ سے انسانوں میں پھیلا اور کہتی ہیں کہ متعدد ایسے افراد موجود ہیں جن کا اس مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن وہ وائرس سے متاثر ہوئے۔

ان دعوؤں کے بعد یان کا چین میں رہنا مشکل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا منتقل ہوچکی ہیں اور الزام عائد کرتی ہیں کہ چینی حکومت انہیں خاموش کرانا چاہتی تھی جس کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔

2- وائرس ووہان کی ایک لیب سے لیک ہوا

دو لیبارٹریز شک کے دائرے میں ہیں، پہلی ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) اور دوسری ووہان سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)— فوٹو: فائل

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس ووہان میں موجود ایک انتہائی حساس لیب سے لیک ہوا اور یہ لیب ووہان کی اس مارکیٹ سے بھی قریب ہے جس کے حوالے سے چینی حکومت کہتی ہے کہ وہاں سے انسانوں میں کورونا وائرس منتقل ہوا۔

اس سلسلے میں دو لیبارٹریز شک کے دائرے میں ہیں، پہلی ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) اور دوسری ووہان سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)۔

دراصل جب 2003 میں ایشیا میں Severe Acute Respiratory Syndrome (سارس) کی بیماری پھیلی تو چین نے اس بیماری کی وجہ بننے والے وائرس پر تحقیق شروع کی۔ اس مقصد کے لیے دو عالمی معیار کی لیب تیار کی گئیں جن میں خطرناک وائرس کو جمع کرکے ان پر تحقیق کی گئی۔

اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ وائرس Palm Civet ایک قسم کی جنگی بلی 'مشک بلاؤ' میں پایا گیا اور اسے یہ وائرس چمگادڑ سے لگا۔

اطلاعات کے مطابق ان دونوں لیبز میں چمگادڑوں سے حاصل وائرس کے ہزاروں سیمپلز موجود ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس لیب میں کام کرنے والے سائنسدانوں نے اُس سطح کے حفاظتی اقدامات نہیں اپنائے جو ان خطرناک وائرس کو ہینڈل کرنے کیلئے ضروری ہوتے ہیں اور اسی لیے ان لیب میں کام کرنے والے کسی شخص کے ساتھ خطرناک وائرس باہر آگیا اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتا چلا گیا۔

ان دو میں ایک ایک لیب ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی ہے جس پر شک ظاہر کیا گیا کہ یہاں سے وائرس باہر نکلا— فوٹو: گوگل میپ اسکرین شاٹ

ان دو میں ایک ایک لیب ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی ہے جس پر شک ظاہر کیا گیا کہ یہاں سے وائرس باہر نکلا تاہم ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کی ایک معتبر سائنسدان شی ژینگ لی نے اس بات کی تردید کی ہے۔

فروری 2020 میں چین کے دو معتبر پولی ٹیکنیکل اداروں کے سائنسدانوں نے ایک 'قبل از اشاعت پیپر' جاری کیا تھا جس میں ووہان سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) میں پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ پیپر میں کہا گیا کہ لیب میں چمگادڑ اکثر عملے پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ ایک بار چمگادڑ نے محقق پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کا پیشاب محقق کے جسم میں لگ گیا اور اسے 14 روز قرنطینہ میں رہنا پڑا۔

وائرس لیب سے لیک ہونے کی تھیوری کو سچ کہنے والے افراد سی ڈی سی کی لیب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیوں کہ یہ اس مارکیٹ سے زیادہ قریب ہے جس کے حوالے سے چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوا— فوٹو: گوگل میپ اسکرین شاٹ

وائرس لیب سے لیک ہونے کی تھیوری کو سچ کہنے والے افراد سی ڈی سی کی لیب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیوں کہ یہ اس مارکیٹ سے زیادہ قریب ہے جس کے حوالے سے چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوا۔

ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی سی فوڈ مارکیٹ سے تقریباً 14 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ سی ڈی سی محض 600 میٹر دور ہے۔

ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی سی فوڈ مارکیٹ سے تقریباً 14 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ سی ڈی سی محض 600 میٹر دور ہے— فوٹو: گوگل میپ اسکرین شاٹ

کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والے تقریباً تمام ہی سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ وائرس قدرتی ہے اور اسے لیب میں تیار نہیں کیا گیا البتہ وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے متصاد آراء ہیں۔ ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لیب سے حادثاتی طور پر کسی وائرس کا باہر آجانا خارج از امکان نہیں ہے،ساتھ ہی ایسے کوئی ٹھوس شواہد بھی موجود نہیں ہیں جو اس بات کی تردید کرسکیں کہ وائرس لیک نہیں ہوا۔

3- وائرس امریکا نے چین میں پھیلایا

جب چین پر ہر جانب سے انگلی اٹھنا شروع ہوئی تو اس نے ہر فورم پر اس کی تردید کی تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان اس سے ایک قدم آگے نکل گئے اور انہوں نے الٹا امریکا پر کورونا وائرس چین میں پھیلانے کا الزام لگادیا البتہ انہوں نے یہ الزام حکومتی سطح پر نہیں بلکہ ذاتی طور پر اپنی ٹوئٹ میں لگایا۔

مارچ 2020 میں ژاؤ لی جیان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لکھا کہ 'شاید چین میں یہ وبا امریکی فوجی لے کر آئے ہیں'۔

ان کے اس بیان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے چینی سفیر کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ سازشی نظریات کا فروغ خطرناک اور مضحکہ خیز ہے، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔ حالانکہ امریکا کا اپنا صدر ہر بیان میں اس وائرس کو پھیلانے کا الزام چین پر لگاتا رہا ہے۔

ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ گزشتہ برس چین کے شہر ووہان میں ہونے والے ملٹری ورلڈ گیمز میں شامل امریکی فوج کے ایتھلیٹس یہ وائرس اپنے ساتھ لائے تاہم اس نظریے کو سہارا دینے کیلئے ٹھوس بنیادیں موجود نہیں۔

اب تک اس معاملے میں جتنی بھی عرق ریزی کی اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سازشی نظریات میں سے زیادہ تر اس وائرس کا ذمہ دار چین کو ٹھہرا رہی ہیں۔

ان مفروضوں میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وقت آنے پر سامنے آجائے گا کیوں کہ دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں وائرس کے شروع ہونے کے مقام کے حوالے مستقل تحقیقات میں مصروف ہیں البتہ مذکورہ دونوں لیب، جانوروں کی اس مارکیٹ جہاں سے وائرس انسانوں میں منتقل ہونے کا بتایا گیا اور ووہان شہر کے حساس مقامات کو چینی حکومت کی جانب سے مکمل طور پر ڈس انفیکٹ کردیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر کلین اپ آپریشن کیا گیا ہے۔ ناقدین اس عمل کو شواہد مٹانے سے بھی تشبیہہ دے رہے ہیں۔ چین نے رضامندی تو ظاہر کی ہے کہ وہ مذکورہ مقامات تک عالمی ماہرین کو رسائی دے گا تاہم مشکل ہے کہ اب ماہرین کو وہاں سے کوئی ثبوت ہاتھ لگے۔

وائرس چین کی جانب سے پھیلائے جانے کے نظریے کی مخالفت کرنے والے افراد یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اگر وائرس چین نے پھیلایا ہوتا تو وہ اپنے ملک میں کیوں لوگوں کی جانوں سے کھیلتا۔ ان لوگوں کیلئے اعداد و شمار پر مبنی یہ معلومات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا کے 10 متاثر ترین ممالک میں مریضوں اور اموات کی تعداد کو سامنے رکھا جائے تو چین میں ہونے والی اموات کچھ بھی نہیں۔

فوٹو بشکریہ ورلڈومیٹر

امریکا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 39 لاکھ 23 ہزار 758 اور اب تک ہونے والی اموات 2 لاکھ 74 ہزار 386 سے زائد ہیں جبکہ چین میں اب تک صرف 86 ہزار 542 افراد کورونا سے متاثر ہوئے ان میں سے 81 ہزار 631 صحتیاب ہوگئے اور صرف 4 ہزار 634 اموات ہوئیں۔

فوٹو بشکریہ ورلڈومیٹر 

مندرجہ بالا مفروضوں کے سچ ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اپنی جگہ لیکن یہاں چند سوالات ضرور سر اٹھاتے ہیں:

• چین سے شروع ہونے والا کورونا وائرس میلوں دور امریکا میں سب سے زیادہ تباہ کاریاں مچارہا ہے لیکن خود چین میں یہ وائرس کیسے ٹھنڈا ہوگیا؟

• ویکسین اور کوئی قابل بھروسہ علاج نہ ہونے کے باوجود چین میں متاثرہ افراد کی بڑی تعداد صحتیاب کیسے ہوگئی؟

• چین کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے جو اس نے وبا کو کنٹرول کرلیا جبکہ امریکا سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک اب تک اس میں ناکام ہیں؟

• اگر چین نے صرف لاک ڈاؤن کرکے وبا کو دبایا تو لاک ڈاؤن یورپ اور امریکا میں بھی سخت ہوا لیکن جوں ہی لاک ڈاؤن نرم ہوتا ہے وہاں دوبارہ کیسز کیوں سر اٹھالیتے ہیں؟

• کورونا وائرس سے سب سے زیادہ امریکا اور اس کے تجارتی و دفاعی اتحادی یورپی ممالک ہی کیوں متاثرہ ہوئے؟


ان سوالوں کے جواب ہر شخص اپنی ذہنی، علمی و سیاسی بصیرت کے مطابق سوچ سکتا ہے، وہ جوابات درست ہوں گے یہ ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ غلط ہوں۔

دوسرا حصہ: اگر کسی نے وائرس پھیلایا ہے تو کیوں پھیلایا؟

1- بل گیٹس اور دوا ساز کمپنیوں کی سازش

کورونا کے حوالے سے جہاں بہت سے سازشی نظریات نے جنم لیا ان میں سے سب سے سرفہرست یہ تھاکہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے جان بوجھ کر اس وائرس کو پھیلایا ہے تاکہ اس کی ویکیسن لگانے کے بہانے انسانوں کے جسم میں چِپ لگا کر انہیں کنٹرول کیا جاسکے اور ان کی نگرانی کی جاسکے،اس کے علاوہ بل گیٹس پر وائرس کے ذریعے دنیا کی آبادی کو کم کرنے کی سازش کا الزام بھی لگایا گیا تو کسی نے کہاکہ وہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر ویکسین کی فروخت سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔

ایسے مفروضوں نے دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا جن میں بل گیٹس کے ہم وطن امریکیوں سے لے کر برطانیہ سمیت پوری دنیا کے عوام شامل ہیں جب کہ اس مفروضے کی گونج اطالوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی جہاں ایک رکن پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ بل گیٹس کو انسانیت کے خلاف جرائم پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں طلب کیا جائے،اطالوی رکن پارلیمنٹ کی اس ویڈیو کو یوٹیوب پر ڈیلیٹ ہونے سے قبل لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور سوشل میڈیا پر اس کے حوالے دیے گئے،اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر لاکھوں پوسٹ کی گئیں جن میں کورونا وائرس کا تعلق بل گیٹس سے جوڑا گیا تاہم سب سے زیادہ جس ویڈیو پر زور رہا وہ خود بل گیٹس کی ایک تقریر تھی۔

2015 میں بل گیٹس نے ایک تقریر کے دوران خبردار کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں انسانیت کو سب سے بڑا خطرہ جوہری جنگ سے نہیں بلکہ کسی وبائی وائرس سے ہے جو کروڑوں افراد کی جان لے سکتا ہے— فوٹو: فائل

دراصل 2015 میں بل گیٹس نے ایک تقریر کے دوران خبردار کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں انسانیت کو سب سے بڑا خطرہ جوہری جنگ سے نہیں بلکہ کسی وبائی وائرس سے ہے جو کروڑوں افراد کی جان لے سکتا ہے۔

اس صورتحال کی سب سے افسو سناک بات یہ ہے کہ یہ الزامات ایسے شخص کے متعلق لگائے گئے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے،اندازے کے مطابق بل گیٹس نے اب تک 37 ارب ڈالر سے زائد رقم فلاحی کاموں پر خرچ کی ہے جو کہ دنیا میں کسی بھی شخص کے مقابلے میں زیادہ ہے اور رقم کا بڑا حصہ صحت عامہ سے متعلق منصوبوں پر خرچ کیا گیا ہے۔

یہی نہیں وہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے بھی سب سے زیادہ سرگرم ہیں اور ان کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے کورونا کے آغاز میں ہی 30 کروڑ ڈالرز کے عطیے کے اعلان کیا تھا جب کہ جون میں بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت تیار ہونے والی کورونا ویکسین کے لیے 75 کروڑ ڈالرز دینے کا بھی اعلان کیا تاکہ غریب ممالک کو ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز فراہم کی جاسکیں ، اس کے علاوہ وہ ویکسین کی ہنگامی طور پر بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے بھی کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔

ان الزامات پر خود بل گیٹس کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی مائیکرو چپ جیسے منصوبوں کا حصہ نہیں رہے، اس کی تو تردید کرنا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ یہ انتہائی احمقانہ بات ہے۔

دوسری جانب دنیا بھر میں اس وقت 80 کےقریب چھوٹی اور بڑی بائیو ٹیکنالوجی کمپنیاں کورونا ویکسین بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔

عام طور پر دوا ساز اداروں پر یہ الزامات لگتے ہی رہے ہیں کہ وہ مختلف وبائی بیماروں کو پھیلانے میں ملوث ہوتی ہیں تاکہ اپنی دوا فروخت کرکے دولت کمائی جاسکے۔

کورونا ویکیسن کی تیاری میں بھی نجی دوا ساز ادارے آگے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ویکسین کی تیاری آسان اور سستا عمل نہیں اور اس کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہنگامی طور پر ویکسین کی تیاری تو مزید مہنگا عمل بن جاتا ہے۔

کوروناکی ویکسین تیار ہونے کے بعد یقیناً دواساز ادارے اس سے بڑی رقم بھی کمائیں گے اور اس وقت فائزر اور بائیون ٹیک جیسی کمپنیاں جو ویکسین بنانے کے قریب ہیں ان کے شیئرز کی قیمت بھی ابھی سے بڑھ گئی ہے تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ کورونا کو پھیلانے میں فارما کمپنیاں ملوث ہیں اور یہ وائرس انہی کی کارستانی ہے کیونکہ سائنسی بنیادوں پر کم ازکم یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ کورونا کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا ہے۔

2- فائیو جی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کورونا کا ڈرامہ رچایا گیا

کورونا سازشی نظریات نے فائیو جی ٹیکنالوجی کو بھی نہیں بخشا اور یہ افواہیں بھی سرگرم رہیں کہ فائیو جی ٹاورز کی تابکاری کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے— فوٹو: فائل

کورونا سازشی نظریات نے فائیو جی ٹیکنالوجی کو بھی نہیں بخشا اور یہ افواہیں بھی سرگرم رہیں کہ فائیو جی ٹاورز کی تابکاری کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے، اور کہا گیا کہ لاک ڈاؤن کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں بند کرکے فائیو جی کے ٹاورز لگائے جارہے ہیں۔

اس سازشی نظریے نے لوگوں میں حقیقی طور پر خوف و ہراس پیدا کیااور برطانیہ میں تو شہریوں نے فائیو جی ٹاورز کو ہی آگ لگادی اور بعض جگہوں پر ٹاورز پر کام کرنے والے عملے کو ہراساں کیا گیا، اس کے علاوہ یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آئے۔

ویسے تو مخالفین فائیو جی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی ریڈیو فریکوئنسی کو انسانی صحت کے لیے بھی خطرناک قرار دیتے رہے ہیں تاہم کورونا وائرس کی وبا نے ان نظریات کو پھیلانے میں جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

ان سازشی نظریات پر مشتمل ویڈیوز اور مضامین سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز رکھنے والے کئی تصدیق شدہ اکاؤنٹس کی جانب سے بھی شیئرکیے گئے اور بعض معروف شخصیات نے بھی اس کی حمایت کی، ان میں سب سے معروف نام پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان کا ہے جنہوں نے کورونا کو سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ 5G ٹیکنالوجی کو چیک کیا جارہا ہے۔

ایک نظریے میں دعویٰ کیا گیا کہ فائیو جی ٹیکنالوجی انسان کی قوت مدافعت کو کمزور کردیتی ہے اسی لیے انسان وائرس کے خلاف لڑ نہیں پا رہا تو کسی نے کہا کہ فائیو جی ٹاورز سے پیدا ہونے والی تابکاری ماحول میں موجود آکسیجن جذب کرلیتی ہے اور انسانی جسم کو متاثر کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ سازشی نظریات اس لیے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی پھیل رہا ہے جہاں فائیو ٹیکنالوجی ابھی دستیاب ہی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سائنس دان فائیو جی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس تشویش کو مسترد کر چکے ہیں کیونکہ فور جی اور سیلولر ٹیکنالوجی کی باقی اقسام کی طرح فائیو جی بھی برقی مقناطیسی (الیکٹرو میگنیٹک) لہروں کو استعمال کرتی ہے جو تابکاری کی وجہ نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کو بھی اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہنا پڑا کہ 'گذشہ دو دہائیوں کے دوران کی گئی متعدد تحقیقات میں موبائل فون کے استعمال سے ہونے والے صحت کو لاحق خطرات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔'

3- چین امریکا و مغربی ممالک میں تجارتی جنگ

وہ لوگ جو چین کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اپنی اس قیاس آرائی کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے چین کی امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ کو وجہ بتاتے ہیں— فوٹو: فائل

وہ لوگ جو چین کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اپنی اس قیاس آرائی کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے چین کی امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ کو وجہ بتاتے ہیں۔

امریکا اور چین کے درمیان طویل عرصے سے سرد جنگ جاری ہے اور سپر پاور بننا، مضبوط ترین معیشت کا حصول، اسلحہ سازی، خلائی ٹیکنالوجی، مواصلاتی ٹیکنالوجی، موبائل فونز اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی (فائیو جی وغیرہ) میں سب سے آگے رہنے سمیت اس کی اور کئی وجوہات ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد چین اور امریکا کے درمیان اس سرد جنگ میں شدت آئی، امریکا نے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیکسز عائد کیے، جواب میں چین نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس تھیوری پر یقین کرنے والے افراد کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے چینی موبائل کمپنی ہواوے پر پابندیاں عائد کرنا ایسا عمل تھا جس سے چین کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ امریکا نے خود تو ہواوے پر پابندیاں عائد کیں ساتھ ہی اپنے اتحادی مغربی ممالک کو بھی اس پر مجبور کیا۔

نتیجتاً برطانیہ نے اپنے ملک میں فائیو جی نیٹ ورک فراہم کرنے والی کمپنیوں کی فہرست سے ہواوے کو ہٹادیا اور تمام موبائل بنانے والی کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ ہواوے سے کسی بھی قسم کا فائیو جی سے متعلق پرزہ مت خریدیں اور اگر پہلے کسی ڈیوائس میں استعمال ہوچکے ہیں تو اسے 2027 تک ختم کیا جائے۔ بعد ازاں آسٹریلیا اور نیوزی نے بھی ایسا ہی کیا۔

ماہرین کے مطابق یہ سازشی نظریات اس لیے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی پھیل رہا ہے جہاں فائیو ٹیکنالوجی ابھی دستیاب ہی نہیں ہے— فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے ان تمام اقدامات کی وجہ چینی کمپنی کی جانب سے مبینہ جاسوسی کو قرار دیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ کمپنی کے بانی رین ژینگ فائی کا ملٹری بیک گراؤنڈ ہے۔ رین 1983 تک 9 سال چینی فوج کا حصہ رہے جبکہ وہ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کا بھی حصہ ہیں۔

ہواوے ان تمام الزامات سے انکار کرتا ہے تاہم مذکورہ تھیوری کے حامی کہتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بلاجواز پابندیوں کی وجہ کوئی جاسوسی نہیں بلکہ امریکا کا یہ خوف تھا کہ کہیں ہواوے امریکی کمپنیوں پر سبقت نہ لے جائے اور 5G ٹیکنالوجی میں سب سے آگے نہ نکل جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سام سنگ پہلے ہی امریکی موبائل فون کمپنی ایپل کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے اور ایسے میں ہواوے کا آگے آنا امریکا کیلئے تشویش کی بات تھی۔ امریکا چاہتا ہے کہ ایپل موبائل سازی میں سب سے آگے ہو اور فائیو جی ٹیکنالوجی میں بھی امریکی کمپنیوں کا ہی اہم کردار ہو۔

مذکورہ تھیوری کے حامی ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر یہ قیاس کرتے ہیں کہ چین نے ان تمام زیادتیوں کا بدلہ ایک جھٹکے میں لے لیا اور امریکا سمیت مغربی ممالک کی معیشت کو ایسی چوٹ پہنچائی کہ اگلا پچھلا سب حساب برابر ہوگیا۔

2011 میں بننے والی فلم اور کورونا میں مماثلت

کورونا کے پیچھے کسی کی سازش کا مفروضہ پیش کرنے والوں نے 2011 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم Contagion کو بھی دلیل کے طور پر پیش کیا۔ بلا شبہ 9 برس قبل بننے والی فلم میں دکھائے جانے والے حالات و واقعات بالکل آج کی طرح ہی ہیں تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کورونا وائرس کسی کی سازش ہے کیوں کہ فلم بننے سے قبل ایسی متعدد بیماریاں موجود تھیں جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہوسکتی تھیں اور اس کی سب سے بڑی مثال SARS ہے جس کی ایک شکل خود کورونا وائرس بھی ہے۔

ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فلم میں دکھائی گئی چند چیزیں ایسی ضرور ہیں جن سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ کہ فلم میں دکھایا گیا کہ وائرس ایک چمگادڑ کی جانب سے گرائے گئے کیلے میں موجود   تھا جس ایک خنزیر نے کھایا جس سے وائرس اس میں منتقل ہوگیا۔

پھر اس خنزیر کو ذبح کرکے باورچی نے کھانا تیار کیا اور بغیر ہاتھ دھوئے ایک خاتون سے ہاتھ ملایا جس کی وجہ سے یہ وائرس خاتون میں منتقل ہوگیا اور وہ وائرس سے متاثر ہونے والی پہلی خاتون بنیں۔ آج عالمی وبا کورونا کے حوالے سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے ہوتا ہوا انسانوں تک پہنچا۔

فلم میں دکھایا گیا کہ جس چمگادڑ نے کیلا گرایا وہ چین میں تھا۔ موجود وبا کے بارے میں بھی یہ کہا جارہا ہے کہ یہ چین سے پھیلی۔ ان دو باتوں میں مماثلت کو اتفاق کہہ لیجیے یا اسے سازش کا نام دے دیجئے۔ حقیقت تو فلم کے ڈائریکٹر اسٹیون سوڈربرگ اور کہانی نویس اسکاٹ زیڈ برنس ہی بتاسکتے ہیں کہ انہوں نے وائرس پھیلانے کا سبب چمگادڑ اور چین کو ہی کیوں چنا؟

اس کے علاوہ فلم میں دکھائے جانے والے مناظر جیسے ماسک کا استعمال، ٹیسٹ کیلئے نمونے لینے کا طریقہ، احتیاطی تدابیر، لاک ڈاؤن وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جو عالمی معیار کے مطابق کسی بھی وبا کی صورت میں اٹھانے ضروری ہیں  لہٰذا فلم بنانے والوں نے سائنسدانوں سے اس حوالے سے ضرور بات کی ہوگی۔

تیسرا حصہ: غیر منطقی اور خیالی باتیں

کورونا وائرس کے حوالے سے گردش کرنے والے مفروضوں اور سازشی نظریات میں یہ سب سے دلچسپ پہلو ہے جس پر سمجھ نہیں آتا کہ ہنسا جائے یا لوگوں کی سوچ پر افسوس کیا جائے۔ اب تک ہم نے جتنے بھی مفروضوں پر روشنی ڈالی کم سے کم اس کی کوئی منطق، غیر مصدقہ ہی سہی لیکن کوئی دلیل تو تھی لیکن اب جن باتوں کا ہم تذکرہ کرنے جارہے ہیں ان کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں، بس جس کے منہ میں جو آیا بول دیا۔

• کورونا سے لوگ بیمار ہونا اور اسپتال بھرنا شروع ہوئے تو لوگوں نے کہا کورونا کچھ نہیں، سب کو کورونا میں ڈال رہے ہیں، ڈاکٹرز کو ہر مریض کے بدلے پیسے مل رہے ہیں حالانکہ یہ باتیں کرنے والوں کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھے۔

•  لوگ مرنا شروع ہوئے تو ہمارے لوگوں نے نہ جانے کونسی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کردیا کہ ہر لاش امریکا بھیجی جارہے ہے تبھی لواحقین کو نہیں دے رہے، امریکا ہر لاش کے پیسے دے رہا ہے۔ مسلمانوں کے دماغ پر تحقیق ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

• کچھ بھائیوں نے اس معاملے میں بھی امریکا اور اسرائیل سے اپنی بھڑاس نکالی اور یہودی و امریکی سازش کہہ کر ایک جھٹکے میں یہ معمہ ہی حل کردیا کہ وائرس کہاں سے آیا۔

• مارکیٹیں اور شاپنگ مالز بند ہونا شروع ہوئے تو لوگ کہنے لگے دشمن کی سازش ہے، ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش ہے اور جن ممالک پر سازش کا الزام لگایا جارہا تھا انہوں نے خود اپنی معیشت بند کررکھی تھی، جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ہی بمشکل 19 ارب ڈالر ہوں اس ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے ایسے ممالک سازش کریں گے جن کی ایک کمپنی کے اثاثے اتنے ہیں جتنے شاید آئندہ کئی برسوں میں (اگر یہی حالات رہے تو) بھی ہمارے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہوں۔

• ہمارے اپنے ایک عزیز نے کورونا میں بھی لسانی جھگڑا ڈھونڈ نکالا، کہا کراچی میں سب سے زیادہ کیسز اس لیے آرہے ہیں کیوں کہ اندرون سندھ سے مریض لائے جارہے ہیں، یہاں سرکاری اسکولوں میں رکھا جارہا ہے انہیں، مارکیٹیں بند کرکے مہاجر تاجروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

• ایک اور بات کانوں میں پڑی کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دماغ میں چپ لگاکر انہیں قابو کرنا چاہتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں تاہم چِپ لگاکر قابو کرنے کی بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ پہلے سوچا کسی نے 'سستی چیز' کھا کر ایسے ہی کہہ دیا اور بات سوشل میڈیا پر فارورڈ ہوتی رہی لیکن جب مضمون لکھنے سے قبل تحقیق کی تو جس شخص کی جانب سے یہ بات کی گئی تھی اس کا نام جان کر سٹپٹا گیا۔ اوپر ویڈیو میں آپ ان محترم کا بیان سن سکتے ہیں۔

مذکورہ جو بھی باتیں کورونا کے حوالے سے بغیر تصدیق کے کی گئیں، انہیں آگے پھیلایا گیا اس کا فائدہ تو شاید ایک فیصد بھی نہ ہوا ہو لیکن نقصان بہت ہوا— فوٹو: اے ایف پی

مذکورہ جو بھی باتیں کورونا کے حوالے سے بغیر تصدیق کے کی گئیں، انہیں آگے پھیلایا گیا اس کا فائدہ تو شاید ایک فیصد بھی نہ ہوا ہو لیکن نقصان بہت ہوا۔ لوگوں نے اسپتال کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور ایسے لاتعداد لوگ ہیں جو بروقت اسپتال نہ جانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے 'کورونا میں ڈال دیں گے' کے ڈر سے ہارٹ اٹیک کو بھی گھر پر ہی سہنے کی کوشش کی اور چل بسے۔

'پورا گھر سیل کردیں گے سب کو اٹھاکر لے جائیں گے' ان افوہوں کی وجہ سے لوگوں نے ٹیسٹ کرانا تو دور اگر کسی کو کورونا ہو بھی گیا تو اس نے بتائے بغیر دوسرے افراد کو متاثر کردیا حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔

کورونا کچھ نہیں ہے یہودی سازش ہے، یہ چورن بھی اتنا بکا کہ لوگوں نے احتیاط ہی چھوڑ دی حالانکہ قوم ہماری وہی کام کرنے کی عادی ہے جس سے منع کیا جائے لہٰذا اس بات کو پلو سے باندھ کر ہمارے لوگ دھڑلے سے گھومتے رہے اور لوگوں سے ملتے رہے، کسی نے ٹوکا تو کہا کورونا کچھ نہیں بس ایک سازش ہے ۔۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

چوتھا حصہ: کورونا، مذہب اور سیاست

کورونا نے دنیا پر یلغار کی تو سائنسدانوں نے ویکسین آنے تک اس سے بچنے کا سب سے آسان حل سماجی دوری اور اجتماعات سے گریز کو بتادیا۔ لاک ڈاؤن میں سنیما، مارکیٹس، ریسٹورینٹس اور تفریحی مقامات بند کردیے گئے تاہم عبادت گاہوں کی بندش ہر ملک میں ایک حساس مسئلہ بن کر سامنے آیا جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ مذہب کے معاملے میں جلدی جذباتی ہوجاتے ہیں۔

مذہب

لاک ڈاؤن میں سنیما، مارکیٹس، ریسٹورینٹس اور تفریحی مقامات بند کردیے گئے تاہم مذہبی عبادت گاہوں کی بندش ہر ملک میں ایک حساس مسئلہ بن کر سامنے آیا— فوٹو: فائل

مسلمانوں کے اہم ایام عید، بقر عید، محرم ، ربیع الاول سب لاک ڈاؤن میں گزرے، اس کے علاوہ اس دوران دیگر مذاہب کے تہوار بھی آئے اور اب کرسمس کی آمد ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف مسلم ممالک میں مساجد کی بندش میں حکام کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ جنوبی کوریا میں ایک چرچ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے منع کرنے کے باوجود اجتماعات کیے اور ملک بھر میں وبا کے پھیلاؤ کا سبب بنا۔

اس کے علاوہ امریکا میں بھی چرچ کی بندش پر لوگوں نے مزاحمت کی اور ابتداء میں آن لائن مذہبی رسومات کی ادائیگی کو قبول نہیں کیا۔حال ہی میں امریکی سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کی بندش اور شرکاء کی تعداد محدود کرنے کے حکومتی حکم نامے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اسرائیل اور امریکا میں قدامت پسند یہودیوں کی جانب سے بھی کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیا گیا اور حکومت کی جانب سے لگائے گئے لاک ڈاؤن سے انکار کرتے ہوئے دونوں جگہ مظاہرے بھی کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں کورونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ان علاقوں میں سامنے آئےجہاں قدامت پسند یا آرتھوڈوکس یہودیوں کی آبادیاں ہیں۔

امریکا میں بھی چرچ کی بندش پر لوگوں نے مزاحمت کی اور ابتداء میں آن لائن مذہبی رسومات کی ادائیگی کو قبول نہیں کیا— فوٹو: اےا یف پی

بھارت میں بھی مختلف تہواروں پر حکومت کے منع کرنے کے باوجود لاکھوں لوگ جمع ہوئے نتیجتاً وہاں کیسز تیزی سے بڑھے، یہی حال ایران کا ہوا اور پاکستان میں بھی عید، بقر عید، محرم اور ربیع الاول میں ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا جس کا نتیجہ ہمیں کورونا کی دوسری لہر کی صورت میں نظر آرہا ہے۔

ہمارے لوگوں نے مفتیان، علماء، ڈاکٹرز اور ماہرین سب کی آراء کو بالائے طاق رکھ کر از خود ہی یہ سمجھ لیا اور اپنے ارد گرد دو چار لوگوں (وہ جو باہر گھومنے اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے) کو بھی اس بات پر قائل کرلیا کہ کورونا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں زندگی موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

ان میں تمام مکتبہ فکر کے ماننے والے لوگ شامل ہیں حالانکہ ان کے مکتبہ فکر کے علماء ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتے رہے کہ احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں لیکن یہاں لوگ وہی بات سنتے ہیں اور کرتے ہیں جو خود ان کو ٹھیک لگتا ہے۔

علماء سمجھاتے رہے کہ بے شک اللہ وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے لیکن خود اللہ پاک نقصان سے بچنے کیلئے اسباب اختیار کرنا بھی تو سکھاتے ہیں۔ کیوں ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ دشمن کے حملے کا خوف ہو تو ایک گروہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے اور کچھ لوگ پہرہ دیں، پھر جب وہ نماز پڑھ لیں تو وہ پہرہ دیں اور دوسرے نماز دا کرلیں۔

علماء کہتے رہے کہ کیوں حضورﷺ نے ہمیں بتایا کہ اگر نماز پڑھ رہے ہوں اور سانپ آجائے تو نماز توڑ کر سانپ کو مارو لیکن شاید غیر منطقی اور غیر مدلل واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پوسٹس زیادہ اثر انگیز تھیں لہٰذا لوگوں نے ان پر زیادہ اعتبار کیا۔

کیا ہماری مسجدوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیک وقت 5 یا 6 جماعتیں نہیں ہوسکتیں؟ ضروری ہے کہ سب ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو ہی نماز ہوگی۔ اب یہ کوئی نہ کہے کہ مسجد میں اتنی جگہ نہیں ہوتی، مساجد میں نمازیوں کی تعداد کتنی ہوتی ہے یہ سب جانتے ہیں ( جمعہ، تہوار، مخصوص ایام کی بات الگ ہے)۔

لوگوں کو گمراہ کرنے میں بعض ناعاقبت اندیش علماء نے بھی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنا پیغام ٹھیک طرح سے نہیں پہنچاپائے۔ علماء شاید یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ 'کورونا سازش ہے تاکہ مسلمان دین سے اور مساجد سے دور ہوجائیں لیکن ہمیں اس سازش کو ناکام بنانا ہے البتہ اب چونکہ یہ شے کورونا حملہ آور ہوگئی ہے لہٰذا احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور اپنے گناہوں پر توبہ کے ساتھ اللہ کی مدد طلب کرنی ہے'، لیکن ہمارے معصوم لوگ صرف اتنا ہی سمجھے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ ہے اور کورونا ایک سازش ہے لہٰذا ہم نہ ماسک لگائیں گے نہ سینیٹائز کریں گے نہ سماجی فاصلہ رکھیں گے۔

 یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے شک عزت ، ذلت، زندگی، موت، رزق سب اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن انسان اللہ پاک کی عطا کردہ استطاعت کے مطابق کوشش کرتا ہے اور امید اللہ کی ذات سے رکھتا ہے لہٰذا درست عمل یہ ہے کہ ہم اپنی سی احتیاط کریں اور نیت یہ رکھیں کہ اللہ حفاظت کرے گا۔

سیاست

مذہبی طبقے کو ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ ساری پابندیاں اور سختیاں ان ہی کیلئے ہیں جبکہ کہیں بھی کورونا ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جارہا۔ دراصل قومی سطح پر ہی ہمارے ہاں قول و فعل میں تضاد ہے۔ سیاستدان، چاہے حکمران جماعت کے ہوں یا اپوزیشن کے، ہر معاملے کو سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے اپنے فائدے کیلئے استعمال بھی کرتے ہیں۔

خادم حسین رضوی کے جنازے کا منظر — فوٹو: فائل/ رائٹرز

حکومت ایک جانب تو کورونا کا رونا روتی نظر آرہی ہے لیکن حال ہی میں ہونے والے گلگت الیکشن میں حکومت کی جانب سے بھی جلسے کیے گئے۔ 

دوسری جانب حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے میں بھی مکمل ناکام نظر آتی ہے اور محض اعلانات کرکے جان چھڑا لیتی ہے اور جب پانی سر سے اوپر جانے لگتا ہے تو اسے لاک ڈاؤن ہی واحد نظر آتا ہے۔ عوام کی تو خیر کوئی ذمہ داری ہی نہیں بس حکومت کو برا بھلا کہو اور آگے بڑھ جاؤ۔

 کیا خادم حسین رضوی اور منور حسن کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت اس کا ثبوت نہیں کہ حکومت ہو، اپوزیشن ہو ، دینی جماعت ہو ، سیاسی جماعت یا پھر ایک عام شہری، کسی میں بھی احساس ذمہ داری موجود نہیں۔

سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن کی نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے — فوٹو: فائل

یہ حال پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا ہے، امریکا میں ٹرمپ دھڑلے سے کورونا کے باوجود جلسے کرتے رہے، نریندر مودی بھی روز کہیں نہ کہیں جلسے کررہے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

حاصلِ مضمون

کہا جاتا ہےکہ جب گھر میں آگ لگ جائے تو اس بحث میں نہیں الجھتےکہ آگ کیسے لگی اورکس نے لگائی؟ بلکہ فوری طور پر آگ بجھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔

اب کورونا کسی سازشی ذہن کی کارستانی ہے یافطرت سے انسانوں کی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ تادم تحریر دنیا بھر میں کورونا سے( 14 لاکھ 44 ہزار 797 سے زائد) افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ( 6 کروڑ 15 لاکھ 62 ہزار) سے زائد افراد میں کورونا کی تصدیق ہوچکی ہے۔

کورونا کے بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی نقصانات بھی الگ ہیں جن کے اثرات آئندہ کئی سالوں تک محسوس کیے جائیں گے۔


کورونا کے بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی نقصانات بھی الگ ہیں جن کے اثرات آئندہ کئی سالوں تک محسوس کیے جائیں گے— فوٹو: اے ایف پی

انسانوں کوکورونا وائرس سے محفوظ بنانےکےلیے دنیا بھر میں 100سے زائد تحقیقاتی ادارے ویکسین کی تیاری پر دن رات کام کررہے ہیں اور امریکا، روس اور چین کے اداروں نے ویکسین کی تیاری میں کامیابی کا بھی دعویٰ کیا ہے تاہم حتمی طور پر ویکسین کب مارکیٹ میں آئے گی اور ہر ایک انسان اس موذی وائرس سے محفوظ رہ سکےگا اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

لہٰذا یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ سنی سنائی غیر مصدقہ معلومات پر نہ خود یقین کریں نہ ہی دوسروں تک پہنچائیں، ذرا سی تحقیق سے ہم صحیح اور غلط کا فرق جان سکتے ہیں، کسی بھی نظریے کو قبول کرنے سے قبل کم سے کم اتنا ضرور سوچیں کہ یہ کس کی طرف سے آیا ہے، کہیں اس کے پیچھے اس کے اپنے مقاصد تو نہیں، یا اس کی بنیاد باہمی دشمنی پر مبنی تو نہیں یا یہ نظریہ سیاسی، سماجی اور معاشی فائدہ حاصل کرنے کیلئے تو نہیں پھیلایا جارہا۔

ایسے حالات میں جب عالم انسانیت ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو، سازشی نظریات، غلط خبریں، بے بنیاد باتیں اور افواہیں نہ صرف خطرے پر قابو پانے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے نقصان میں اضافے سمیت ہنگامی صورتحال سے نبردآزما افراد کے حوصلے بھی پست ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا ریسرچ: فاروق عبداللہ