LIVE

آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس: اعظم سواتی 62 ون ایف کے تحت مطمئن کریں، چیف جسٹس

ویب ڈیسک
November 29, 2018
 

Your browser doesnt support HTML5 video.


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وضاحت طلب کرلی جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعظم سواتی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا وہ ہمیں 62 ون ایف کے تحت مطمئن کریں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔

وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے سربمہر رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی تھی، مجھے ابھی تک رپورٹ کی کاپی موصول نہیں ہوئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اعظم سواتی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہےاعظم سواتی کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا گیا۔

اعظم سواتی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر ایک وفد کے ہمراہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی وزیر کو نہیں جانتے، عدالت کے سامنے سب لوگ برابر ہیں۔

 ہم کسی وزیر کو نہیں جانتے، عدالت کے سامنے سب برابر ہیں: چیف جسٹس

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کیا اس طرح کے عام آدمی کو وزیر رہنا چاہیے؟ ہمیں آرٹیکل 62 ون ایف بھی دیکھنا ہو گا، وکیل صاحب آرٹیکل 62 ون ایف ہے نہ؟ ہم اعظم سواتی کونوٹس کردیتے ہیں، 62 ون ایف کے تحت ہمیں مطمئن کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا یہ بھی دیکھنا ہےکہ اعظم سواتی نے کتنی ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ وفاقی وزیر 3 دسمبر کو واپس آرہے ہیں، اس کے ایک ہفتے کے بعد جواب جمع کروا سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے اعظم سواتی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ میں ان کو واپس بلوا لیتا ہوں۔

عدالت نے متاثرہ خاندان کو وزیر سے  صلح کرنے سے روک دیا

اس موقع پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ متاثرہ خاندان کدھرہے؟

متاثرہ خاندان سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ ہم آپ کے لیے،آپ کی عزت کے لیے اور آپ کی بچیوں کے لیے لڑرہے ہیں، آپ نے ان سے صلح کیسے کرلی؟ ہم آپ کوصلح کرنے کی اجازت نہیں دے رہے، بڑوں کو کس بات کی معافی دیں، آپ کا خاندان آپ کی بیٹیاں کیا جیل میں رہ کرنہیں آئیں۔

سپریم کورٹ نے متاثرہ خاندان کو صلح کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کردی اور جے آئی ٹی رپورٹ پر اعظم سواتی سے منگل تک جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بھی اسی روز تک ملتوی کردی۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں اہم انکشافات

دوسری جانب اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔

پولیس اعظم سواتی کے خاندان کے ساتھ مل گئی: جے آئی ٹی رپورٹ

رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ واقعے کے اگلے دن ہی وزیر مملکت داخلہ اور ایس ایس پی آپریشنز اعظم سواتی کے گھر گئے، پولیس اعظم سواتی کے خاندان کے ساتھ مل گئی اور  پولیس نے اس واقعے کی ایماندارانہ تفتیش نہیں کی، پولیس افسران نےجان بوجھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق 30 اکتوبر کو مضروب نیاز علی کی ضمانت ہوگئی، اعظم سواتی کے بیٹے نے کہا کہ ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد معاملہ راضی نامے سے حل کر لیا گیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ نیاز علی نے بتایا کہ اس کے گھر جرگہ آیا تھا، بطور پختون وہ جرگے کو انکار نہیں کرسکا اور ملزمان کو معاف کردیا۔

’بطور وزیر سینیٹر اعظم سواتی سے خصوصی طور پر نرم رویہ اختیار کیا گیا‘

رپورٹ کے مطابق اعظم سواتی کی اہلیہ نیاز علی کے گھر اس کے بچوں کے لیے کپڑے لے کر آئیں، نیاز علی کے خاندان کو رقم کی پیش کش بھی کی گئی جو اس نے ٹھکرا دی، یہ سب سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ نیاز علی خاندان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا جب کہ بطور وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی سے خصوصی طور پر نرم رویہ اختیار کیا گیا، اعظم سواتی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔

رپورٹ کے مطابق مقدمے کی تفتیش پولیس کے جونیئر افسران نے کی، پولیس افسران نے جے آئی ٹی کو بتایا یہ عام نوعیت کا کیس تھا اس لیے سنجیدہ نہیں لیا، اعظم سواتی کے بیٹے کے زیر استعمال کلاشنکوف کا لائسنس نہیں تھا۔

سواتی خاندان کا مؤقف جھوٹ پر مبنی،بے بنیاد اور تضادات سے بھرپور: رپورٹ

جےآئی ٹی کی 5 جِلدوں پر مشمل رپورٹ میں کہا گیاہے کہ سواتی خاندان کا مؤقف جھوٹ پر مبنی،بے بنیاد اور تضادات سے بھرپور ہے۔

اعظم سواتی تنازع کا پس منظر

یاد رہے کہ اعظم سواتی کے صاحبزادے کی جانب سے ان کے فارم ہاؤس کے قریب رہائش پذیر غریب پرور خاندان کے خلاف اندراج مقدمہ کے بعد صورتحال خراب ہوئی۔

وفاقی وزیر نے اس معاملے پر آئی جی اسلام آباد کو کئی مرتبہ فون کرنے کا اعتراف کیا ، یہ جھگڑا ابھی درمیان میں ہی تھا کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جس پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا۔

اعظم سواتی کے مس کنڈکٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس نے وفاقی وزیر کے پڑوسیوں ساتھ تنازع میں بطور وزیر ان کے مس کنڈکٹ کا تعین کرنا تھا، عدالت نے جے آئی ٹی کو 14 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ اعظم سواتی اور ان کے بچوں کے اثاثے اور ٹیکس معاملات دیکھنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ کو بھی شامل تفتیش کیا تھا۔