LIVE

بائیڈن کی کامیابی، سعودی عرب کو ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات لاحق

ویب ڈیسک
November 12, 2020
 

عالمی برادری ایرانی حکومت کے خلاف فیصلہ کن مؤقف اپنائے،سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز،فوٹو: فائل

سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز  نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران  کے خلاف سخت اور فیصلہ کن مؤقف اپنائیں۔

خبر ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب توقع کی جارہی ہے کہ منتخب امریکی صدر جوبائیڈن عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران سے  2015 کے جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کریں گے۔

سعودی عرب کو جوبائیڈن کی جانب سے ایران سے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے عندیے نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

یہ جوہری معاہدہ جولائی 2015 میں یورپی یونین سمیت 6 عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین نے ایران کے ساتھ کیا تھا اور اس وقت جوبائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے تاہم 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز  ہی عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)  نے خبردار کیا ہےکہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے ذخائر کی مقدار  2015 کے جوہری معاہدے میں دی گئی اجازت سے 12 گنا زیادہ ہوگئے ہیں۔

سعودی شوریٰ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان کاکہنا تھا کہ عالمی برادری ایرانی حکومت کے خلاف فیصلہ کن مؤقف اپنائے اور ایران کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام  سے روکے تاکہ خطے کے امن اور سلامتی کو محفوظ بنایا جاسکے۔

جوہری معاہدے میں کیا طے ہوا تھا؟

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں یورپی یونین سمیت 6 عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے ’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘ کے تحت ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ جوہری ری ایکٹر میں بطور ایندھن استعمال ہونے اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے افزودہ شدہ یورینیم کے ذخائر کو 15 سال کے لیے محدود کرے گا جبکہ یورینیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز کی تعداد کو 10 سال کے عرصے میں بتدریج کم کرے گا۔

 شرائط کو قبول کرنے کے بدلے اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں عہدہ سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو تباہ کن اور پاگل پن قرار دینا شروع کردیا تھا اور 2018 میں معاہدے سے بالآخر علیحدگی اختیار کرلی تھی جس پر عالمی برادری نے ناراضی کا اظہار کیا تھا تاہم سعودی حکمرانوں کی جانب سے اس فیصلے کو سراہا گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ  کا کہنا تھا کہ ایران ریاستی دہشت گردی کی سر پرستی کرتا ہے، حقیقت میں اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت مل گئی اور معاہدے  کے بعد ایران نے خراب معاشی صورتحال کے باوجود اپنے دفاعی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا ہے۔

دوسری جانب ایران ہمیشہ سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے جس کی تصدیق عالمی جوہری توانائی ایجنسی بھی کرتی ہے۔