Time 09 مئی ، 2018
دنیا

امریکا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبردار، یورپی یونین معاہدے کی پاسداری پر متفق

صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا خالی دھمکیاں نہیں دیتا— فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکا نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا تاہم دیگر فریقین نے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔

خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے۔

صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا خالی دھمکیاں نہیں دیتا، ایران سے ایٹمی تعاون کرنے والی ریاستوں پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔

ایران ریاستی دہشت گردی کی سر پرستی کرتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’ایران ریاستی دہشت گردی کی سر پرستی کرتا ہے، حقیقت میں اس ڈیل کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت مل گئی، ایران، شام  اور یمن میں کارروائیاں کر رہا ہے‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس ثبوت ہے کہ ایران کا وعدہ جھوٹا تھا، ایران نیوکلیئر ڈیل یک طرفہ تھی، ڈیل کے بعد ایران نے خراب معاشی صورتحال کے باوجود اپنے دفاعی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا‘۔

امریکی صدر نے کہا کہ ’ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ہوگا، ایران ایک دہشت گرد ملک ہے، وہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ایران سے جوہری معاہدہ نہیں ہوناچاہیے تھا، معاہدے کو جاری رکھا تو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی اور جیسے ہی ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگا دیگر ممالک بھی کوششیں تیز کر دیں گے‘۔

امریکی محکمہ خزانہ کی ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں

ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی محکمہ خزانہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔

امریکی وزیر خزانہ اسٹیون موچن نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں 90 سے 180 روز کے دوران دوبارہ مکمل طور پر عائد ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ ایک ایسا معاہدہ تیار کیا جاسکے جو امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہو۔

امریکا کے بغیر بھی جوہری معاہدہ جاری رہے گا، ایرانی صدر 

ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کا اعلان عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے تاہم امریکا کے بغیر بھی جوہرہ معاہدہ جاری رہے گا۔

امریکی صدر کا اعلان عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، حسن روحانی — فوٹو: ارنا

حسن روحانی نے ٹرمپ کے اعلان کے بعد قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل کیا البتہ امریکا کبھی جوہری معاہدے سے مخلص ہی نہیں تھا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ امریکا نے ہمیشہ ایٹمی معاہدے سے متعلق جھوٹ بولا اور بغیر کسی ثبوت کے ہمیشہ ایران کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے جوہری معاہدے پر عمل کیا اور اس کی تصدیق عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای  اے) نے بھی کی، ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ خلافی کی ہے۔

حسن روحانی نے کہا ہے کہ دنیا کے ساتھ تعمیری تعلقات ایرانی خارجہ پالیسی کی اساس ہے اور امریکا کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کے باوجود ایران ترقی جاری رکھے گا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ایران دیگر ممالک سے ایٹمی معاہدہ جاری رکھے گا، یورینیم کی افزودگی شروع کرنے سے پہلے اتحادیوں سےمشورہ کریں گے، کچھ ہفتوں میں یورینیم کی افزودگی شروع کرسکتے ہیں، ٹرمپ کو ایرانی قوم اور معیشت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

حسن روحانی نے کہا کہ روس اور چین کو آگے آنا ہوگا، ایٹمی معاہدے سے متعلق دیگر ممالک کے ردعمل کا انتظار ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ افسوس ناک ہے، فرانس

امریکی صدر کے فیصلے پر رد عمل جاری کرتے ہوئے فرانس کے صدر ایمانوئیل ماکروں نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ افسوس ناک ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری پیغام میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ اس فیصلے پر افسردہ ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ نے دلیرانہ اقدام کیا۔

امید ہے دیگر ممالک معاہدے پر عمل جاری رکھیں گے، سربراہ یورپی یونین خارجہ پالیسی

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے پر عمل کررہا تھا۔

اپنے رد عمل میں انہوں نے کہا کہ ایران سے معاہدے کے ثمرات مل رہے ہیں، امید ہے دیگر ممالک معاہدے پر عمل جاری رکھیں گے۔

فیڈریکا موغرینی نے کہا کہ یورپ ایران سے جوہری معاہدے کے تحفظ کیلئے متحد ہے، ایران پر سے اقتصادی پابندیوں کاخاتمہ ایٹمی معاہدہ کاحصہ تھا، ایران کے ساتھ معاہدہ جاری رہے گا۔

ٹرمپ کا فیصلہ مایوس کن ہے، روس

امریکی صدر کے فیصلے پر روس کی جانب سے بھی مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے نائب سفیر دمتری پولیانسکی نے کہا کہ روس کو ٹرمپ کے اس فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس امریکی رویے سے اتنا ہی مایوس ہے جتنا کہ پہلے تھا یعنی ہمیں اس فیصلے سے زیادہ حیرانی نہیں ہوئی، روس سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے سمیت تمام آپشنز پر غور کررہا ہے۔

ایران سے جوہری معاہدہ جاری رکھا جائے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے امریکی فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکا کے بغیر بھی معاہدے پر عملدرآمد ہوسکتا ہے، ایران سے جوہری ڈیل جاری رکھی جائے۔

ٹرمپ کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ

امریکی صدر کی جانب سے ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے اعلان کے فوراً بعد دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی۔

اس کے علاوہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔

ایران پر اگر امریکا کی جانب سے دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ اپنا تیل عالمی مارکیٹ میں فروخت نہیں کرسکے گا۔

جوہری معاہدے میں کیا طے ہوا تھا؟

جولائی 2015 میں یورپی یونین سمیت 6 عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے ’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکش‘ کے تحت ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ جوہری ری ایکٹر میں بطور ایندھن استعمال ہونے اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے افزودہ شدہ یورینیم کے ذخائر کو 15 سال کے لیے محدود کرے گا جبکہ یورینیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز کی تعداد کو 10 سال کے عرصے میں بتدریج کم کرے گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایران نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ وہ بھاری پانی کی تنصیب کو بھی تبدیل کرے گا تاکہ بم میں استعمال ہونے والا مواد پلوٹونیم تیار نہ کیا جاسکے۔

ان تمام شرائط کو قبول کرنے کے بدلے اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔

ایران ہمیشہ سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے جس کی تصدیق عالمی جوہری توانائی ایجنسی بھی کرتی ہے۔

ٹرمپ کو جوہری معاہدے سے کیا مسئلہ تھا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو تباہ کن اور پاگل پن قرار دینا شروع کردیا تھا اور وہ دو بار اس بات کی توثیق کرنے سے انکار کرچکے ہیں کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل کررہا ہے۔

رواں برس جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے میں موجود نقائص ختم نہ کیے گئے تو امریکا 12 مئی سے پہلے جوہری معاہدے سے الگ ہوجائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ جوہری معاہدے سے ایران کے جوہری معاہدے کو محض ایک مخصوص مدت کے لیے محدود کیا گیا اور یہ معاہدہ ایران کو بیلسٹک میزائلز کی تیاری سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔

ٹرمپ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں نرم ہوئیں اور اسے 100 ارب ڈالر کی رقم مل گئی جو اس نے مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں، دہشت اور ظلم و بربریت کے فروغ میں استعمال کی۔

مزید خبریں :