LIVE

ناخن گوشت میں دھنس جانے کے مسئلے سے نجات کیلئے مددگار طریقے

ویب ڈیسک
March 19, 2023
 

یہ بہت عام مسئلہ ہے / فوٹو بشکریہ وکی ہاؤ

پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن کا گوشت کے اندر بڑھنا یا اس میں دھنس جانا ایک عام مسئلہ ہے جو کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔

عموماً ایسا پاؤں کے انگوٹھے میں ہوتا ہے مگر کسی بھی انگلی میں ایسا ہو سکتا ہے اور عموماً اس مسئلے کا سامنا بار بار ہوتا ہے۔

اگر متاثرہ حصہ انفیکشن کا شکار ہو جائے تو خود علاج کرنے کی بجائے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر انفیکشن نہیں ہوا ہو تو پھر آپ گھر میں رہتے ہوئے چند طریقوں پر عمل کر سکتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے دوبارہ بچنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

گرم پانی میں بھگو دیں

متاثرہ پاؤں کو نمک ملے گرم پانی میں روزانہ 2 بار 15، 15 منٹ کے لیے بھگو کر رکھیں۔

اس سے ناخن گوشت میں دھنس جانے سے ہونے والی تکلیف اور سوجن میں کمی لانے میں مدد ملے گی، البتہ بھگونے کے بعد فوری طو رپر پاؤں خشک ضرور کریں۔

پاؤں کو خشک رکھیں

پانی میں بھگونے سے ہٹ کر باقی وقت متاثرہ حصے کو نمی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

نرمی سے جِلد کو ناخن سے دور کریں

نیل فائل (nail file) یا ایسی کسی چیز کو استعمال کرکے نرمی سے ناخن کو جِلد سے ہٹانے کی کوشش کریں۔

روئی کی مدد لیں

ناخن اور جِلد کے درمیان صاف روئی کے چھوٹے ٹکڑے رکھنے سے دونوں کو الگ کرنے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ جِلد کو بھی سہارا ملتا ہے۔

پانی یا جراثیم کش کلینر میں بھگو کر روئی کو استعمال کریں۔

مرہم کا استعمال

متاثرہ حصے پر جراثیم کش مرہم کا استعمال کرنے سے انفیکشن کا خطرہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

بینڈیج سے ڈھانپ دیں

متاثرہ انگوٹھے کو بینڈیج سے ڈھانپنے سے اس جگہ کو زیادہ تحفظ ملتا ہے۔

کھلے جوتوں کا استعمال

اگر اس مسئلے کا سامنا ہے تو کھلے جوتے پہننے کی کوشش کریں اور تنگ جوتوں کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس سے ناخن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے جس سے انفیکشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔

درد کش ادویات کا استعمال

عام درد کش ادویات کے استعمال سے تکلیف اور سوجن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

سیب کا سرکہ بھی مددگار

سیب کے سرکے کو ورم کش سمجھا جاتا ہے اور تکلیف میں بھی کمی آتی ہے۔

اسے استعمال کرنے کے لیے سیب کے سرکے کے ایک چوتھائی کپ کو گرم پانی میں ملا کر پاؤں 20 منٹ تک بھگو کر رکھیں۔

ایسا روزانہ ایک بار کریں۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔