پاکستان
Time 05 نومبر ، 2017

پیراڈائز لیکس: شوکت عزیز اور ایاز خان سمیت 135 پاکستانیوں کے نام شامل


تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) نے ’پیراڈائز لیکس‘ جاری کردیے ہیں جن میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت تقریباً 135 پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔

پیراڈائز لیکس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی، صدر الدین ہاشوانی، میاں منشاء، ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) لائسنس کی کامیاب بولی دینے والے ظہیر الدین، سونیری بینک کے مالک نورالدین فیراستا، چیئرمین داؤد ہرکولیس کارپوریشن حسین داؤد اور دیگر نامور پاکستانیوں کی شناخت سامنے آئی ہے جنہوں نے آف شور سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

پیراڈائز لیکس میں جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے انہوں نے یا تو اپنے یا پھر آف شور کمپنیوں کے نام سے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹس بنائے تھے۔

پیراڈائز لیکس میں پاکستانیوں کے حوالے سے ملنے والا بیشتر ریکارڈ برمودا، برٹش ورجن آئی لینڈ، کیمین آئی لینڈ، مالٹا اور دیگر ملکوں سے ملا ہے۔

سابق وزیراعظم شوکت عزیز

پیراڈائز لیکس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا ایک ٹرسٹ سامنے آیا ہے۔ شوکت عزیز نے انٹارکٹک ٹرسٹ قائم کیا۔ ان کی اہلیہ اور بچے اس ٹرسٹ کے بینی فشری بنے۔

دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ بننے سے کچھ پہلے شوکت عزیز نے ڈیلاویر (امریکا) میں ٹرسٹ قائم کیا جسے برمودا سے چلایا جارہا تھا۔

پیراڈائز لیکش کے مطابق بطور وزیر خزانہ اور وزیراعظم شوکت عزیز نے کبھی یہ اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

شوکت عزیز نے نیویارک سے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ انہیں ٹرسٹ پاکستان میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ’سیٹلر‘ (Settlor) تھے۔ ان کے مطابق ان کے بیوی بچوں کو بھی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بینی فشری تھے، بینی فشل اونر نہیں۔

خیال رہے کہ شوکت عزیز 1999 میں وزیر خزانہ مقرر ہوئے جبکہ 28 اگست 2004 کو وزارتِ عظمٰی کا قلم دان سنبھالا اور 15 نومبر 2007 کو بطور وزیراعظم سبکدوش ہوئے۔

شوکت عزیز نے 1969 میں سٹی بینک میں شمولیت اختیار کی اور 2007 کے بعد سے وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔

این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی

ایاز خان نیازی کے برٹش ورجن آئی لینڈ میں چار آف شور اثاثے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اینڈالوشین ڈسکریشنری ٹرسٹ (Andalusian Discretionary Trust) نامی ٹرسٹ تھا۔ باقی تین کمپنیاں تھیں جن کے نام یہ تھے: اینڈالوشین اسٹیبلشمنٹ لیمیٹڈ، اینڈالوشین انٹرپرائسز لیمیٹڈ اور اینڈالوشین ہولڈنگز لمیٹیڈ (Andalusian Establishment Limited, Andalusian Enterprises Limited and Andalusian Holdings Limited)

ان سب کو 2010 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب ایاز نیازی این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔

ایاز نیازی کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی بینی فشل اونر تھے جبکہ ایاز نیازی، ان کے والد عبدالرزاق خان اور والدہ فوزیہ رزاق نے بطور ڈائرکٹر کام کیا۔

صدرالدین ہاشوانی:

پاکستان میں ہوٹلز اور تیل کی صنعت سے وابستہ ایک بڑی کاروباری شخصیت صدرالدین ہاشوانی کی بارباڈوس اور کیمین آئی لینڈ میں ایک ایک کمپنی ہے جن کے نام باؤ انرجی ریسورسز (پاکستان) ایس آر ایل اور اوشن پاکستان لمیٹڈ ہیں۔

دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کو ایک اور آف شور ملک ماریشیس کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور لندن میں اسی بینک کی ایک اور شاخ سے بھاری قرضہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا اور یہ دو کمپنیاں پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں کے علاوہ ہیں۔

دی نیوز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے صدرالدین ہاشوانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال بھی تفصیلی جواب دیا تھا (جب پاناما پیپرز میں ان کی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی تھی) اور اس تفصیلی جواب میں مزید کوئی بات شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ 

صدرالدین ہاشوانی کے مطابق جہاں تک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی ماریشس برانچ سے قرضہ لینے کا سوال ہے تو یہ کاروباری نوعیت کا قرضہ تھا اور بینک کے حق میں چارج ایس ای سی پی میں رجسٹر کیا گیا تھا لہٰذا چھپانے کی کوئی بات موجود نہیں ہے۔

میاں منشا:

نشاط گروپ کے چیئرمین میاں محمد منشا کا تعلق 6 آف شور کمپنیوں کے سا تھ سامنے آیا ہے۔ ان میں سے چار ورجن آئی لینڈ میں ہیں جن کے نام مالین سیکورٹیز لمیٹڈ، میپل لیف انوسٹمنٹ لمیٹڈ، لائل ٹریڈنگ لمیٹڈ، ڈولین انٹرنیشنل لمیٹڈ باقی دو کمپنیاں ماریشس میں ہیں جن کے نام کروفٹ لمیٹڈ اور بیسٹ ایگلز ہولڈنگز انکارپوریٹڈ ہیں۔ 

ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے ایک سوئس بینک کا حوالہ بھی سامنے آیا ہے جو 1994ء کا ہے اور یہ اکاؤنٹ 2007ء تک قائم تھا۔

دی نیوز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے میاں منشا کا کہنا تھا کہ 1990ء کی دہائی میں پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کی وجہ سے امریکا منتقل ہونا پڑا تھا۔ یہ بینک اکائونٹ اُس وقت روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے تھا۔ 

میاں منشا کے مطابق تقریباً ایک دہائی بعد یہ اکاؤنٹ ختم کرکے رقم باضابطہ ذرائع سے پاکستان منتقل کر دی گئی تھی اور ان کا حوالہ ٹیکس ریٹرنز میں بھی موجود ہے۔

علاؤالدین جے فیراستا:

علاؤ الدین جے فیراستا، سونیری بینک کے چیئرمین ہیں اور وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی رینج ورتھ لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ ان کے بھتیجے اور روپالی پولی ایسٹر لمیٹڈ کے چیئرمین نے بھی برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک کمپنی قائم کی ہے جس کا سوئس بینک میں ایک اکاؤنٹ ہے۔ دونوں نے دی نیوز کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

عبید الطاف خانانی:

امریکی عدالت میں منی لانڈرنگ کے جرم کا اعتراف کرنے والے عبید الطاف خانانی کا بھی سوئس بینک میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک مشترکہ اکاؤنٹ سامنے آیا ہے۔ حسین داؤد کو آئیل آف مین میں رجسٹرڈ کمپنی سے تعلق میں شناخت کیا گیا تھا، اس کمپنی کا نام ہرکولیس انٹرپرائزیز لمیٹیڈ تھا اور اس کے سوئس اور فرینچ بینکوں میں دو کھاتے بھی تھے۔

بزنس مین ظہیرالدین:

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بزنس مین ظہیر الدین، جو ڈی ٹی ایچ لائسنس حاصل کرنے والے تین افراد میں سے ایک تھے، وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں تین کمپنیوں کے مالک تھے اور بینک آف برمودا اور ایچ ایس بی سی برمودا مین ان کے دو اکاؤنٹس تھے۔

جب پیمرا میں ڈی ٹی ایچ کی بولی کے لئے کاروبار کی تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں تو ان میں سے کسی کا بھی انہوں نے بزنس پروفائل میں اعلان نہیں کیا تھا۔

تاثیر خاندان:

ماریشس میں قائم ایک آف شور کمپنی Balyasny SI لمیٹیڈ نے ڈیلی ٹائمز اخبار میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ کمپنی مکمل طور پر شکتی ماسٹر فنڈ ایل پی کی سبسیڈری ہے۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2011 ء میں Balyasny کے حصص کے بینی فشل اونرشپ کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں جس کا یہ جواب موصول ہوا تھا کہ کمپنی (Balyasny) حصص کی بینی فشل مالک ہے۔ اس نے پیس پاکستان کے حصص بھی خریدے تھے جو تاثیر خاندان کی ملکیت ہے۔ 

دی نیوز نے تبصرے کے لئے شہریار تاثیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک کارپوریٹ ارینجمنٹ تھا۔

پرنس کریم آغا خان:

اسماعیلی برادری کے روحانی رہنما اور برطانوی شہری پرنس کریم آغا خان ریکارڈ میں دو وجوہات کی بنا پر سامنے آئے۔ وہ آئیل آف مین : براو رومیو میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ 

ایپل بائے ریکارڈ کے مطابق کمپنی ایک چھوٹے بحری جہاز کی ملکیت کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ ایپل بائے کے نزدیک اس کمپنی کو ہائی رسک خیال کیا جاتا ہےکیونکہ وہ اس کی موزوں نگرانی کرنے کے قابل نہیں تھے۔ایپل بائے، آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈولپمنٹ ایس اے کے لئے بھی کام کرتی ہے جو کہ آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک کا ایک معاون ادارہ ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ڈولپمنٹ ایجنسی ہے۔

شیرات آئل اینڈ گیس کمپنی :

پاکستان سے شیرات آئل اینڈ گیس کمپنی کا نام بھی پیراڈائز لیکس میں سامنے آ یا ہے جس کے تین آف شور اکاونٹس سامنے آئے ہیں۔

شیرات آئل اینڈ گیس کمپنی نےڈی ٹی ایچ لائسنس کے لیے بھی نیلامی کی بولی بھی دی تھی۔

پیراڈائز پیپرز کیا ہیں؟

گزشتہ برس جاری ہونے والے پاناما پیپرز پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فونسیکا کی دستاویزات پر مبنی تھے لیکن اب جاری ہونے والے پیراڈائز پیپرز کمپنی ’’ایپل بائی‘‘ کی دستاویز پر مشتمل ہیں۔ پاناما پیپرز میں 50 ممالک کے 140 نمایاں افراد کے نام سامنے آئے تھے۔ پاناما لیکس میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات سامنے آئیں تھیں اور اس کام کے لیے 376 صحافیوں نے کام کیا تھا۔

پیراڈائز پیپرز میں 47 ممالک کے 127 نمایاں افراد کے نام شامل ہیں۔ پیراڈائز لیکس میں ایک کروڑ 34 لاکھ دستاویزات شامل ہیں اور اس کام کے لیے 67 ممالک کے 381 صحافیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔

پیراڈائز لیکس کا بڑا حصہ کمپنی ایپل بائی کی دستاویزات پر مشتمل ہے اور یہ دستاویزات سنگاپور اور برمودا کی دو کمپنیوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ پیرا ڈائز پیپرز پہلے جرمن اخبار نے حاصل کیے اور آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیے۔

ان میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں 1950 سے لے کر 2016 تک کا ڈیٹا موجود ہے ۔

پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے سب سے زیادہ شہریوں کے نام آئے ہیں ان میں امریکا 25 ہزار 414 شہریوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ برطانیہ کے 12 ہزار 707 شہری، ہانگ کانگ کے 6 ہزار 120شہری، چین کے 5 ہزار 675 شہری اور برمودا کے 5 ہزار 124 شہری شامل ہیں۔

مزید خبریں :