28 دسمبر ، 2017
لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ قوم کو دھوکے میں رکھ کر کیمیکل کو دودھ بتاکر نہیں بیچنے دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ناقص دودھ کی فروخت کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسی رپورٹس پر انحصار نہیں کیا جائے جس سے معاشرے میں سراسیمگی پھیلے، جو معیاری دودھ بیچ رہے ہیں عدالت ان کا کام بند کرنے کی اجازت نہیں دے گی، عدالت کا مقصد کسی کے کاروبار کو ختم کرنا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کھلے دودھ کی فروخت میں بہت سے مسائل ہورہے ہیں، ناقص دودھ پینے سے بچے متاثرہورہے ہیں جس پر عدالت کو سخت تشویش ہے۔
دوران سماعت ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل عدالت میں پیش ہوئے۔
ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے عدالت کو بتایا کہ اگست میں کھلے اور بند دودھ کے نمونے لے کر ٹیسٹ کرائے، صحت کے لیے مضر ہونے پر پاؤڈر دودھ کی فروخت پر پابندی لگادی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فوڈسیفٹی کےساتھ دودھ سیفٹی کی ٹیمیں تشکیل دے رہے ہیں، دودھ سیفٹی ٹیمیں روزانہ کی بنیادپردودھ کےنمونوں کاجائزہ لیں گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو ڈبے کے دودھ پر لگادیا گیا، حالانکہ یہ دودھ نہیں، قوم کو دھوکے میں رکھ کر کیمیکل کو دودھ بتاکر نہیں بیچنے دیں گے۔
ڈی جی فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ آگہی مہم چلائی جارہی ہے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ چھوڑیں آگہی مہم کو، میں خود متاثرہ ہوں، ڈبے پر واضح اور بڑے حروف میں لکھیں کہ یہ دودھ نہیں، کسی دھوکے میں مت آئیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پیمرا کو کہیں گے کہ دودھ سے متعلق اشتہاری مہم چلائیں۔
عدالت نے خشک دودھ یا کیمیکل کو دودھ بتاکر فروخت کرنے والی کمپنیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور ان کمپنیوں سے جواب طلبی کےلیے نوٹس بھی جاری کردیا۔
سماعت کے موقع پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں پر پنجاب میں پابندی عائد کی گئی ہے یا نہیں؟ مرغیوں کو جو انجکشن اورسٹیرائڈز لگائے جاتے ہیں ان کے اثرات ہمارے جسم پر آرہے ہیں، چکن کھانے سے بچوں کے ہارمونز میں تبدیلی کی شکایت عام ہوچکی ہے۔
عدالت نےانجکشن کی فروخت میں ملوث کمپنی کو حکم امتناع دینے والے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں مزید کہا کہ بڑی فوڈچین کو استعمال شدہ گھی کسی صورت فروخت نہیں کرنے دیں گے، استعمال شدہ گھی بعدمیں پکوڑے اور حلوہ پوری بنانےمیں استعمال کیاجاتا ہے، ستعمال شدہ گھی ڈیزل بن چکاہےجو انسانی جان کے لیے مضرہے۔