11 ستمبر ، 2017
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں واقع بد نصیب فیکٹری علی انٹرپرائزز میں لگنے والی آگ کو پانچ سال گزر گئے ،فیکٹری میں خوفناک آگ نے 260 لوگوں کو زندہ جلادیا تھا۔
11 ستمبر سال 2012 پیش آیا ایک ایسا خوفناک واقعہ جسے پاکستان کا نائن الیون بھی کہا جاتا ہے۔ حب ریور روڈ پر واقع علی انٹرپرائزز میں خطرناک آگ نے 260 جانیں نگل لیں۔
واقعے کا مقدمہ پہلے سائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائیٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا۔ مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔
6 فروری 2015 کو عدالت میں رینجرز نے ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی اور اس کی وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔
ملزم رضوان قریشی کی جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ فیکٹری کو آگ لگانے میں سیاسی جماعت کے عہدیدار ملوث ہیں۔
حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کیمیکل ایک ڈرم میں بھرا اور پھر فیکٹری کا مرکزی دروازہ بند کر کے آگ لگا دی گئی۔
تفتیش میں اس نئے موڑ کے بعد ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں ایک نئی جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔
سانحہ بلدیہ ٹاون کو 5 سال گزر جانے کے بعد بھی اصل مجرم قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔