Time 09 اکتوبر ، 2017
بلاگ

جنرل ضیاء الحق بنام وزیراعظم عباسی

مردِ مومن مردِ حق ہاؤس

محلہ اسلام پورہ

نزد بھٹو مارکیٹ، مکافات نگر

ڈئیر بھتیجے !معذرت کہ چند دنوں میں دوسرا خط لکھ رہا ،مجھے معلوم تم اتنے مصروف کہ پہلا خط بھی8نودنوں میں پڑھا، مجھے یہ بھی پتا کہ پہلا خط پڑھتے ہوئے تمہاری حالت ویسے ہی ہوگئی تھی جیسے عمران خان کو دیکھ کر میاں نواز شریف کی ہوجائے، مصطفیٰ کمال کو دیکھ کر الطاف حسین کی ہو جائے یا جیسے شیخ رشید کو دیکھ کر پرویز مشرف کی ہوجائے لیکن کیاکروں ،جہاں رہتا ہوں وہاں موبائل چلتے نہیں، ٹیلی فون لائنیں بچھی ہوئیں مگر بتایا جارہا مولانا فضل الرحمٰن آکر افتتاح کریں گے یعنی اگلے چالیس 50سال تو نہ ہی سمجھو ،لہٰذا اب خط کا آپشن ہی رہ جاتا ہے۔

آج سویرے سویرے قذافی اور صدام حسین آدھمکے ، بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑائی تو حمید گل آگیا، ابھی اُٹھ کر گیا ہے، کہہ رہا تھا کہ وہ اور آصف نواز رات کا کھانا ایوب خان کے ہاں کھائیں گے، جھوٹے منہ سے مجھے آفر نہ کی ، خیر کوئی بات نہیں ، شام ہونے کو، میں کمرے کا دروازہ بند کر کے خط لکھ رہا ،اپنے صحن میں بھی نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ جیسے ہی صحن میں آتا ہوں تو پہلے سے تاک میں بیٹھا ذوالفقار بھٹو آکر جلی کٹی سنانے لگ جاتا ہے اور تو اور پرسوں محمد خان جونیجو ، بے نظیر بھٹو ، مصطفٰی جتوئی اور شاہ احمد نورانی کے ہمراہ آیا اور ٹکے ٹکے کی باتیں سنا کر چلتا بنا، ابھی تک بلڈ پریشر ہائی ، مگر کیا کروں، کچھ نہیں کرسکتا سوائے بلڈ پریشر کی دوا لینے کے اور ابھی یہی کرکے تمہیں خط لکھ رہا ہوں ۔

عزیزی! یہ تم کیا کر رہے ‘دو ڈھائی سال کی رُکی فائلیں نکال دیں، ڈیڑھ دوسال سے زیرالتوا فیصلے کردیئے،ایاز صادق سے پہلے اسمبلی پہنچ جاتے ہو، نیشنل سیکورٹی کونسل اور کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے کررہے اور اوپرسے ہر کوئی تمہیں مل سکے، یہی سب دیکھ کر کل تمہارے چاچا محمد شریف بڑے دُکھ بھرے انداز میں کہہ رہے تھے کہ ’’ہم نے تو یہ سوچ کر اسے وزیراعظم بنایا کہ لوگ میاں نواز شریف کی کمی محسوس کرینگے ، مگر یہ تو ایسے کام کر رہا کہ کمی کیا سب خوشی محسوس کررہے ، یہ تو Cheatingہوئی، لہٰذا عزیزم ذرا آہستہ ۔ اور ہاں کل تمہارے ابو ملے، بڑے خوش تھے کہ تم نہ صرف اپنے اورمیاں نواز شریف کے خوشامدیوں سے اچھا نمٹ رہے ، چوہدری نثارسے رابطے میں بلکہ شہباز شریف کو یہ تک محسوس نہیں ہونے دے رہے کہ اس کی کرسی پر تم بیٹھے ہوئے۔

پیارے بھتیجے! تمہیں کچھ ایسے بھی ملیں گے جو پچھلوں کی طرح تمہیں بھی پاکستان ،ایشیاء اور مسلم امہ کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ، تم اوپر اوپر سے ’’ثابت ‘‘ہو جانامگر اندر سے تمہاراقائدنواز شریف اور بھائی اعجاز الحق ہی رہنا چاہئے، پھر تمہیں چند اپنے سویلین بالادستی اور جمہوریت کے سبق بھی رٹائیں گے، تم سبق رٹ لینالیکن فوج سے تمہارا تعلق ویسا ہی محبت وعقیدت بھرا ہونا چاہئے جیسا تمہارے باپ کا مجھ سے تھا لیکن سب کچھ کرتے ہوئے یہ نہ بھولنا کہ تم نے نواز شریف سے زیادہ نواز شریف کو بھی اہمیت نہیں دینی۔

میرے پیارے ! تجھے میاں نواز شریف کے سامنے باادب بیٹھا دیکھ کر مجھے وہ زمانہ یا دآجائے کہ جب بڑے بڑے مجھے سلطان محمود غزنوی اورصلاح الدین ایوبی مان کر میرے سامنے باادب بیٹھا کرتے تھے، یہاں تو مجھے اتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی جتنی کوثر نیازی ،احمد فراز، پروین شاکر حتیٰ کہ اداکار ننھا کو دی جارہی ، تمہیں اقوام متحدہ میں شیروانی پہنے تقریر کرتے دیکھ کر مجھے اپنی شیروانیوں کا دور یاد آگیا، ہا ہا۔ میں شیروانی میں کیا جچتا تھا ، ویسے شیروانی میں تمہارا پیٹ نظر آرہا تھا ‘کبھی کبھی وزیراعظم ہاؤس میں سائیکل چلالیا کرو، تمہیں یاد ہی ہوگا جب میں نے سائیکل چلائی تھی ، آپس کی بات ہے کہ جس دن میں نے سائیکل چلائی اسی شام خبرنامے میں خود کو سائیکل پر دیکھ کر میرا اپنا بھی ’’ہاسہ ‘‘ نکل گیا تھا ۔

جانِ عزیز ! کچھ اعلیٰ دماغ میاں صاحب کے کیسز اور ان کی مشکلات کو سول ملٹری تناؤ کا رنگ دیں گے اور دانستہ یا نادانستہ جلتی پر تیل بھی ڈالیں گے ،مگرمجھے پتا ہے کہ تم کچھ زیادہ Positiveکرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن کچھ Negativeبھی نہ ہونے دینا ،پرسوں لیاقت علی خان کو سلام کرنے گیا تو وہ بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ،وہ تو تفصیل سے کچھ بتانا چاہ رہے تھے مگر یحییٰ خان آگیا ،میں تو حیران رہ گیا کہ جس عقیدت سے جنرل یحییٰ لیاقت علی خان سے ملا اور یہ سن کر تو میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا کہ یحییٰ خان لیاقت علی خان کے ہمراہ قائداعظمؒ اور فاطمہ جناح ؒ کے ہاں جارہا اور وہ بھی چائے پینے ، حیرانی سے یادآیا تمہیں شاید یقین نہ آئے کہ یہاں آکر محمد خان جونیجو بڑا انقلابی ہوچکا، ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ پیرپگاڑا تک حیران وپریشان، جیسے میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاتے دیکھ کر جب میاں شریف نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا ’’ جلاوطنی نے میرے بیٹے کو تبدیل کر دیا ‘اس بار وہ بہتر حکومت کرے گا ‘‘تو محمد خان جونیجو بولا’’ جلا وطنی نے تمہارے بیٹے کو بس اتنا ہی بدلا جتنا اُس شخص کو جوحج سے واپسی پر گھر جانے کی بجائے اُس دکان پر جاپہنچا جہاں سے ادھار لیتا تھا۔

اس نے دکاندار سے کہا’’میرا ادھار والا رجسٹر نکالو‘‘ دکاندار یہ سوچ کر پیسے ملنے والے‘ خوشی خوشی اس شخص کا ادھار نکال کر بولا’’ کتنے پیسے دے رہے‘‘ اس شخص کا جواب تھا’’ پیسے کی بات چھوڑو، وہ پھر کبھی ،ابھی فوراً میرے نام کیساتھ حاجی لکھ دو‘‘ اتنا کہہ کر سائیں جونیجو نے ایک قہقہہ مار ا اورمیاں شریف کو مخاطب کرکے کہا’’ یہاں دکاندار سے مراد پاکستانی قوم ہے ‘‘ اسی طرح پاناما لیکس میں میاں نواز شریف کی کیفیت پر محمد خان جونیجو نے کچھ یوں تبصرہ کیا ’’ میاں صاحب کودیکھ کر میلہ دیکھنے گیا وہ دیہاتی ذہن میں آئے جو سارا دن میلے میں پھرنے کے بعدجب تھک ہار کے ایک جگہ بیٹھا تو آنکھ لگ گئی ،تھوڑی دیر بعد جاگا تو اس کی چادر غائب تھی ،شام کو واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا ’’میلہ کیسا رہا‘ ‘ بولا’’ میلا شیلا تو ایک بہانہ تھا ‘اصل میں تو سب لوگ میری چادر چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ‘‘ ۔

پیارے بھتیجے ! باتیں تو اور بھی بہت مگر پہلے خط کا انجام دیکھ کر دوسر ے خط کا اختتام کر رہا ، آخر میں بس یہی کہنا کہ اندرونی سازشوں میں گھِر کر یہ مت بھول جانا کہ بیرونی محاذ پر حالات بہت نازک ہو چکے ‘ اگر کوئی شک ہو تو سلیم صافی کے گزشتہ دو ماہ کے کالم پڑھ لو ، میری طرح تمہیں بھی ٹھنڈ پڑ جائے گی (ویسے یہ صافی صاحب میرے دور میں کہاں تھے )،ہاں پچھلے دنوں اپنے خاموش مجاہد میجر عامر کے مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویوز سن کر دل بہت خوش ہوا کہ چلو کوئی تو ہے جو اصل بات بتا رہا ورنہ تو ہر کوئی ہر برائی ہمارے کھاتے میں ڈال رہا، لیکن ان انٹرویوز کی خوشی جلد ہی غم میں تب بدلی جب ایک مشہور صحافی کا پروفیسر غنی والا کالم پڑھ لیا ، پروفیسر صاحب نے اپنے علمِ نجوم کی مدد سے یہ پیش گوئی کی کہ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو 2020-21تک عالمی طاقتیں پاک بھارت کواُس جنگ میں دھکیل دیں گے کہ پھر دونوں ملکوں میں وہ گھر خوش نصیب ہوں گے کہ جہاں دیا جل رہا ہوگا۔

بھتیجے اللہ کے فضل وکرم سے ایسا نہیں ہوگا مگرپھر بھی احتیاط بہت ضروری ، ارے صحافی سے یاد آیا ،پچھلے ہفتے کیفے ٹیریا میں فاروق لغاری کے ساتھ چائے پیتے ڈاکٹر ظفر الطاف مل گئے ‘باتوں باتوں میں اس صحافی کا ذکرچھڑنے پر ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے ’’ پتا نہیں اب وہ دل کی باتیں کس سے کرتا ہوگا اور معلوم نہیں آجکل اپنی دوپہریں کہاں گزارتا ہوگا‘‘۔

بھتیجے اب اجازت چاہتا ہوں ،ابھی اپنا ٹی وی انٹینا بھی ٹھیک کرنا ہے، تم لوگ تو وائی فائی کے مزے اڑا رہے ہمارا انٹینا ہی ٹھیک نہیں ہوتا،جب کبھی ٹی وی سگنل ٹھیک آرہے ہوں تو تمہیں دیکھ اور مجیب الرحمان شامی کو سن لیتا ہوں، دُکھ توبہت ہوتا ہے جب شامی صاحب باتیں کرتے کرتے میرے ذکر سے یوں کنی کترا جاتے ہیں جیسے بھٹو کا جیالا زرداری صاحب کو دیکھ کر کنی کترا جائے ،مگر کیاکروں پھر بھی شامی صاحب ہی اچھے لگتے ہیں ،ویسے میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ شامی صاحب کھاتے کیا ہیں، ابھی تک ویسے ہی، جیسے چھوڑ کرآیا تھا ،دیکھو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، اللہ پاکستان کا حامی وناصر ہو، اپنا خیال رکھو، بہت ساری دعاؤں اور ڈھیر سارے پیار کے ساتھ۔

تمہارا (اگر سمجھو تو)تایا جنرل ضیا الحق


یہ کالم روزنامہ جنگ میں 9 اکتوبر کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔