11 اکتوبر ، 2017
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں دبئی میں رئیل سٹیٹ میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری اور پاکستان سے اربوں ڈالر کی منتقلی کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
کمیٹی کی کنوینئر ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان کھرل ہوں گی جبکہ ارکان میں اسد عمر اور اسفن یاربھنڈارا شامل ہونگے۔
قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا ، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے اپوزیشن ارکان کے مطالبے پروفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نے وزیرخزانہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ مالیاتی خسارے کی وجہ سے صورتحال خراب ہوچکی ہے جس پر ورلڈ بینک نے بھی تشویش کااظہار کیا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ پاکستانیوں نے 8ارب ڈالر پاکستان سے دبئی میں منتقل کیے ہیں اور وہاں رئیل سٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے اور اربوں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی کی گئی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں اس لیے کسی طرح کی خفیہ معلومات نہیں لے سکتے تاہم ایف بی آر نے یو اے ای کی ٹیکس اتھارٹی سے معلومات کی فراہمی کے لیے متعدد بار خطوط لکھے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔
قیصر احمد شیخ نےکہا کہ کرپشن اور ٹیکس چوری کا زیادہ تر پیسہ دبئی میں رئیل سٹیٹ کے شعبے میں لگایا جارہا ہے۔
کمیٹی میں رئیل سٹیٹ سے وابستہ افراد کو جائیداد کی قیمتوں کے تعین پر تحفظات کا بھی جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر نے جائیداد کی قیمتوں کا صحیح تعین نہیں کیا مارکیٹ ریٹ اور ایف بی آر کے تعین کردہ ریٹ میں بہت فرق ہے ، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے چیئرمین عارف جیوا نے کمیٹی کو بتایا کہ مارکیٹ ویلیو میں بہت فرق ہے جبکہ صوبوں کو بھی اس معاملے میں شامل نہیں کیا گیا۔جائیداد کے تین طرح کے مختلف ریٹس ہیں ایک ایف بی آر کے تعین کردہ، مارکیٹ ریٹ اور ڈی سی ریٹ جس سے بہت مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان رئیل انوسٹیمنٹ فورم کے صدر نے کہا بنکنگ چینل کے ذریعے زمین کی خرید و فروخت پر ایف بی آر کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے، جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جائیداد کی قیمتوں کے نئے تعین پر کام جاری ہے اس کے لیے دو اجلاس پہلے ہی ہو چکے ہیں اور سروے بھی کیا گیا اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائیگی اور آئندہ دو ہفتوں میں اس پر کام کو مکمل کر لیا جائیگا جس کی کمیٹی کو رپورٹ بھی دی جائیگی۔
ایران کے ساتھ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کمیٹی نے سٹیٹ بنک سے کہا کہ ایران کے ساتھ ایل سی کے عمل کو کیوں مکمل نہیں کیا جارہا جس پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ ایران کے مرکزی بنک کےساتھ معاہدہ ہوگیا ہے اور پاکستانی بنکوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ایرانی بنکوں کے ساتھ ایل سی شروع کریں جبکہ ایرانی بنکوں کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ ملکی مفاد میں اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جائے تاکہ ایران کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہو سکے۔
علاوہ ازیں چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو گزشتہ برس کے ریونیو کے اعداد و شمار سے آگاہ کیا ور کہا کہ ایف بی آر نے 3368ارب روپے کا ریونیوجمع کیا اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 20فیصد کی گروتھ ہوئی ہے ، کمیٹی نے چیئرمین ایف بی آر کے کردار کی تعریف کی ، ایس ای سی پی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس ای سی پی نے سٹاک ایکسچینج کی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے.
نیشنل بنک کے صدر سعید احمد نے کمیٹی کو بنک چین میں برانچ کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے انہوں نے پنشن سکیم میں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جس کے تحت پنشنروں کو ادائیگی سے بنک کو 47ارب70کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔
سعید احمد نے بتایا کہ بنک نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس فیصلے سے بنک کے بیرون ملک آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔
سعید احمد نے بتایا کہ انہوں نے کسی کو فردیا کمپنی کو دبئی یادسرے ممالک میں جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں دی ارکان کمیٹی نے نیشنل بنک آف پاکستان کی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا تاہم بنک کی موجودہ انتظامیہ کی کارکردگی کو سراہا ، کمیٹی میں ربا بل2015کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اس بل کے محرک شیر اکبر خان نے کہا کہ ملک میں سودی نظام ہے جس سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے ، اس بل کو دوسال ہو گئے ہیں لیکن کوئی کام نہیں ہوا۔
رکن کمیٹی اسد عمر نے کہا کہ بل پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار جواب دیں کیونکہ یہ پالیسی کامعاملہ ہےاور اس پر سٹیٹ بنک یا وزارت خزانہ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی اس پر فیصلہ حکومت نے کرنا ہے ، کمیٹی میں پرائیویٹ منی لانڈرنگ بل 2017پر بھی غور کیا گیادونوں بلز کو آئندہ اجلاس تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔
یہ خبر 11 اکتوبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔