10 نومبر ، 2017
اسموگ یا آلودہ دھند، صرف پاکستان یا بھارت کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے اور دونوں ممالک کو اس کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے موجود واحد مناسب پلیٹ فارم جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم یعنی 'سارک' ہے۔
اس ہنگامی صورت حال کی نوعیت یہ ہے کہ اگر پاکستان اس سلسلے میں موثر اقدامات کرلے اور بھارت اب بھی اسموگ کا شکار ہو تو چاہے ہم جتنی بھی کوششیں کیوں نہ کرلیں، اس کے باوجود بھی ہم اسموگ کا شکار ہوں گے، لہذا اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
اسموگ واضح طور پر ایک آلودگی ہے، جو ہمارے لیے نقصان دہ ہے اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ زیادہ دیر تک برقرار رہے، ہمیں اپنی فضاء کو صاف کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں تین طرح کی حکمت عملی اپنانی ہوگی— طویل المدت حل، درمیانی مدت کا حل اور قلیل مدت کا حل اور پنجاب اس سلسلے میں پہلے ہی بہت سے مختصر مدت کے اقدامات اٹھا چکا ہے۔
دوسری جانب اس مسئلے کے جڑ سے خاتمے کے لیے ہمیں اس کی بنیادوں کا علم ہونا چاہیے اور ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ کیا اسموگ صرف زرعی شعبے کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے؟ شہر میں موجود فیکٹریاں اور گاڑیوں کے دھویں سے کتنی آلودگی پھیلتی ہے؟ اگر ہم فصلوں کا کوڑا جلانے پر پابندی عائد کردیں تو کیا ہم نے کسانوں کو کوئی متبادل حل پیش کیا ہے؟
لہذا اب یہ کہنے کا وقت ہے کہ بہت ہوچکا! ترقی یافتہ دنیا نے ہمارے ساتھ یہ سب کیا ہے، ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں، ہم اس سیارے کی فضاء کو آلودہ نہیں کرسکتے، ہمیں ہر حال میں اپنے اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے راستے نکالنے ہوں گے۔
جہاں تک بھارت کی بات ہے تو اس حوالے سے وفاقی حکومت سرحد پار رابطے کرسکتی ہے، کیونکہ صرف پنجاب نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بالائی سندھ کے کچھ علاقے بھی اسموگ سے متاثر ہوئے ہیں، لہذا اسے ایک ریاستی ایجنڈا ہونا چاہیے۔
زکیہ شاہنواز پنجاب کی وزیر برائے ماحولیات ہیں