21 نومبر ، 2017
نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملکی سیاست خاص طور پر ن لیگی سیاست ایک ہیجان کا شکار ہے۔ وزارت عظمی سے بے دخلی کے بعد نواز شریف نے اپنی مزاحمتی تحریک شروع کی اور اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے پورے راستے ایک ہی سوال دھراتے گئے ’مجھے کیوں نکالا ؟‘۔
ابتدا میں نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے رہے تاہم اب انہوں نے براہ راست ججوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کردیا اور اب تو حد ہی ہو گئی، وہ کھلم کھلا معزز جج صاحبان کو ’بغض سے بھرا ہوا‘ کہہ رہے ہیں۔
بات یہاں تک ہی نہیں رکی انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ کیا نہیں جارہا بلکہ ’کروایا‘ جا رہا ہے، انہوں نے فیصلہ ’کروانے‘ والوں پر راہزنی کا الزام بھی لگا دیا جب پوچھا گیا کہ میاں صاحب راہزن کسے کہہ رہے ہیں تو جواب آیا کہ راہزنی کا الزام جن پر لگایا جارہا ہے وہ سب جانتے ہیں کہ یہ الزام کس پر لگایا جارہا ہے۔
ایبٹ آباد کے جلسے میں نواز شریف نے راہزنی کے الفاظ ہی نہیں دہرائے بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ ’پانچ افراد‘ بیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے یعنی جو فیصلہ میاں صاحب کے خلاف ہو وہ ان کے بقول بیس کروڑ عوام کے خلاف ہو جاتا ہے۔
وہ اس حقیقت سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں کہ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں عدالتی فیصلے کی حمایت کرکے عوام کی ترجمانی کر رہی ہیں۔
نواز شریف کے بارے میں میں کیا کہوں کہ انہوں نے تو اپنے رہبروں کو ہی راہزن کہہ ڈالا، میں میاں صاحب سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ان کو سیاست کی پہلی سیڑھی پر قدم کس نے رکھوایا؟ وزیراعظم کی کرسی تک وہ کس کی مدد اور حمایت سے پہنچے؟ نوازشریف اگر یہ سب بھول گئے ہیں تو ہم یاد دلاتے ہیں۔
میاں صاحب گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی آپ کی انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے، انہی کی رہنمائی میں آپ جنرل ضیاء الحق کے کندھے پر سوار ہوئے اگر حالیہ دور کی بات کریں تو میاں نواز شریف شاید بھول گئے کہ عمران خان کے 126 دن کا دھرنا جنرل راحیل شریف کی کوششوں کے بعد ختم ہوا اور انہوں نے آپ کی حکومت کو گرنے سے بچایا اور اس وقت آپ کو بچانے میں موجودہ رہبر کا بھی ایک بڑا کرادار تھا جو جمہوریت کے حامی ہیں۔
نواز شریف صاحب آپ قوم کو مزید دھوکا نہیں دے سکتے ہیں کیوں کہ قوم سب جان چکی ہے کہ رہبر کون ہے اور راہزن کون، اگر آپ کی بات کو ایک لمحے کے لیے درست تصور کر لیا جائے تو کیا صرف جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے آمریت قائم کرنے والا ہی راہزن ہوتا ہے؟ کیا حکومت میں رہتے ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والا اور اپنی دولت چھپانے والا راہزن نہیں ہوتا۔
میاں صاحب میں نہایت ادب سے عرض کروں کہ آپ اور آپ کے حواری ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ ہم نے حکومت میں رہتے ہوئے کبھی ٹھیکوں یا دیگر سے کوئی کمیشن نہیں لیا، کسی حکومتی پروجیکٹ میں خرد برد کرکے کوئی پیسہ نہیں کمایا۔
آپ سب نے الزام لگایا کہ آصف زرداری نے ملک سے باہر اربوں ڈالر کا ناجائز سرمایہ جمع کر رکھا ہے اور آپ تمام دولت ملک میں واپس لائیں گے لیکن آپ نے یہ الزام صرف دھونس دھمکی کی حد تک رکھا اور اس کے لیے کبھی کوئی کوشش نہیں کی کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ جب لندن کے قیمتی فلیٹ خریدے گئے اس وقت تو آپ ہی کی حکومت تھی۔
اور جوں جوں آپ کی حکومت چلتی رہی آپ کا بیرون ملک سرمایہ تیز رفتاری سے بڑھتا گیا۔
تہذیب یافتہ ملکوں میں کسی حکومتی عہدہ رکھنے والے کا حالیہ تو کیا اس کے زمانہ طالب علمی کا کوئی چھوٹا سا معاملہ بھی سامنے آجائے تو وہ استعفی دے کر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوکر گھر چلا جاتا ہے تا کہ معاملے کی تحقیقات میں رکاوٹ نہ ہو۔
لیکن آپ اور آپ کے حواری ہیں کہ مانتے ہی نہیں، آپ کے سمدھی اور ملک کے علیل وزیر خزانہ اسحاق ڈار حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اب ملزم بن چکے ہیں اور احتساب عدالت نے ان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں لیکن شاید آپ کی حمایت کی وجہ سے وہ استعفی دینے کو تیار نہیں اور نہ کوئی ان سے تقاضہ کرنے کی جرات رکھتا ہے۔
نواز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی میں ان کے نااہل ہونے کے بعد سے اب تک مفاہمت یا مزاحمت کی سیاست پر بحث جاری ہے، نواز شریف مزاحمت کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں جب کہ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے حامی ہیں۔
شہباز شریف نہایت ادب کے ساتھ بڑے بھائی کو سمجھانے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن نوازشریف بدستور اپنی سیاسی حمکت عملی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پچھلے دنوں نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں وزیر ریلوے اور میاں صاحب کے قریبی ساتھی خواجہ سعد رفیق اور صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے میاں صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سڑکوں پر آکر لوگوں بتانا چاہئے کہ راہزن کون ہے جو میاں نواز شریف کو سیاست سے دور کرنا چاہتا ہے تو شہباز شریف ان پر برہم بھی ہوئے اور محاذ آرائی کی سیاست سے دور رہنے کا کہا۔
اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی میاں شہباز شریف کا ساتھ دیا۔
شہباز شریف چاہتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست کی جائے تاکہ ملک ترقی کرے اور اداروں کے درمیان کسی بھی تصادم سے بچا جائے لیکن نواز شریف کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ہیں، وہ اپنی نااہلی کے بعد بپھر گئے ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی جارحانہ سیاست پر عمل پیرا ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ملک کے حالات خراب کرنے والی بیرونی طاقتوں کو ایٹمی پاکستان کھٹکتا ہے، یہ طاقتیں جانتی ہیں کہ افواج پاکستان کا نظم و نسق مثالی ہے اور فوج جیسے با صلاحیت ادارے کے ہوتے ہوئے وہ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ان کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح اس ادارے کو کمزور کرکے پاکستان کے استحکام کو خطرات سے دوچار کیا جائے اور ان حالات میں میاں نواز شریف سمیت ہم سب کو سوچنا چائیے کہ مسلح افواج کو متنازعہ بنانے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔