26 نومبر ، 2017
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ایک گھنٹہ طویل اہم ملاقات کی جس کے بعد آئندہ 24 گھنٹوں میں دو وفاقی وزراء کے مستعفی ہونے کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیرقانون زاہد حامد نے لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اہم ملاقات کی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اہم پیش رفت سامنے آنے کا امکان ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران دو وزراء استعفیٰ دے دیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران زاہد حامد اور ایک خاتون وزیر کے مستعفی ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے استعفے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہا کسی وزیر سے استعفیٰ نہیں لیا جا رہا۔
انہوں نے کہا کہ فیض آباد آپریشن عدالت کے کہنے پر کیا گیا، دھرنے والے مسلح تھے اس لیے آپریشن روکنا پڑا، حکموت اپنے نقطہ نظر سے عدالت کو (آج) پیر کے روز آگاہ کرے گی۔
واضح رہے کہ دھرنا مظاہرین کا ابتدائی مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے ہٹانا ہی تھا۔
یاد رہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی کا ذمہ دار دھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد اور حکومت کو ٹھہرارہے ہیں اور 21 روز قبل اس معاملے پر فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا شروع کیا گیا تھا۔
حکومت نے مختلف حلقوں کی جانب سے آنے والے دباؤ کے پیش نظر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ختم نبوت کے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کردیا تھا لیکن دھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے مطالبے پر قائم تھے۔
حکومت نے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم مذاکرات کے تمام ادوار ناکام ہوگئے تھے۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے ہفتہ 25 نومبر کو فیض آباد انٹرچینج کلیئر کرانے کے لیے پولیس اور ایف سی کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اس آپریشن کے بعد مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے اور دیگر علاقوں میں پھیل گئے، آپریشن کے خلاف ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد حکومت نے آپریشن معطل کردیا اور وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی تازہ ترین ملاقات میں معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کرلیا گیا۔