دنیا
Time 02 دسمبر ، 2017

یمن کے سابق صدر کی سعودی عسکری اتحاد کو مذاکرات کی پیشکش

یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل سے نکالنے کے لیے سعودی سربراہی میں قائم ہونے والے عسکری اتحاد کو مذاکرات کی پیشکش کردی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار فورسز اور ان کے اتحادی حوثی باغی مل کر موجودہ صدر عبدالربہ منصور ہادی اور سعودی عسکری اتحاد کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

تاہم اب عبداللہ صالح کے وفادار فوجیوں اور حوثی باغیوں میں ہی اختلافات پھوٹ پڑے ہیں اور وہ آپس میں لڑ رہے ہیں جس کے بعد ملک میں جاری خانہ جنگی مزید سنگین ہونے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

اس صورتحال میں علی عبداللہ صالح نے سعودی عرب کی سربراہی میں یمنی صدر منصور ہادی کی مدد کے لیے قائم ہونے والے عسکری اتحاد کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اگر عسکری اتحاد شمالی یمن میں ناکہ بندیاں ختم کرنے اور اپنے حملے روکنے کے لیے تیار ہے تو وہ بھی پرانی باتوں کو بھول کر نئی شروعات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عبداللہ صالح نے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں کہا کہ ’’میں پڑوسی ممالک میں موجود اپنے بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جارحیت کا راستہ ترک کریں اور ناکہ بندیاں ختم کریں، پھر ہم بھی نئی شروعات کریں گے‘‘۔

خیال رہے کہ عبداللہ صالح کی فورسز اور حوثی باغیوں کے درمیان صنعاء کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری ہیں جہاں صالح کے رشتے دار بھی مقیم ہیں۔

صالح کی فورسز نے حوثی باغیوں پر صنعاء کی مرکزی مسجد پر دھاوا بولنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد دونوں گروپس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

عبداللہ صالح نے اپنی پارٹی جنرل پیپلز کانگریس کے کارکنوں پر حملے پر حوثی باغیوں کی شدید مذمت کی ہے۔

یاد رہے کہ دارالحکومت صنعاء پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے، ستمبر 2014 میں حوثی باغیوں نے صنعاء پر حملہ کر کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادی کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس کے جواب میں سعودی عرب کی سربراہی میں عرب عسکری اتحاد نے مارچ 2015 میں یمن کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2015 سے اب تک یمن میں8670 سے زائد افراد ہلاک اور 50 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

مزید خبریں :