28 دسمبر ، 2017
پاکستان سپر لیگ ایڈیشن ٹو اسپاٹ فکسنگ نے بھونچال پیدا کر دیا اور اب تک اس کے آفٹر شاکس محسوس کیے جارہے ہیں۔
ابتدا ہوئی خالد لطیف اور شرجیل خان کی معطلی سے، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ محسوس ہوایہ کھلاڑیوں کا نام سامنے آنے کا سلسلہ تھمے گا نہیں۔
باہر بیٹھے ناصر جمشید کو اس سارے گھناؤنے کام کا مرکزی کردار گردانا گیا لیکن ناصر جمشید پی سی بی کے ہاتھ نہ آئے، اسی بنیادپر ان پر تین رکنی ٹریبونل میں کیس چلا اور پھر اب وہ ایک برس کی پابندی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
خالد لطیف پر اینٹی کرپشن کوڈ کی 6 جب کہ شرجیل خان پر 5 شقوں کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر چارج شیٹ جاری ہوئی اورپھر ٹریبونل میں طویل کیس چلا ۔
اتار چڑھاؤ بھی آئے، کارروائیوں کا کبھی بائیکاٹ ہوا تو کبھی کسی ناگواری کا اظہار کیا لیکن ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔ شرجیل خان کو 5 برس کی پابندی کی سزا سنا دی گئی، اس میں ڈھائی برس کی معطلی سزا بھی شامل ہے۔
شرجیل خان نے سزا ماننے سے انکار کیا اور معاملہ آزاد ایڈجیودیکیٹر کے پاس گیا، اپیل مسترد ہوئی تو اب شرجیل خان ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خالد لطیف کو 5 برس کی پابندی اور 10 لاکھ کی سزا کا سامنا کڑنا پڑا، اپیل ایڈجیوڈیکٹر کے سامنے زیر سماعت ہے۔
دراز قد فاسٹ بولر محمد عرفارن پر بکیوں کے رابطوں کی رپورٹ نہ کرنے کا الزام لگا تو انہوں نے معاملہ پی سی بی کے ساتھ ہی طے کیا،6 ماہ کی پابندی کی سزا کاٹی اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ادا کیا، ان کی اب کی کرکٹ میں واپسی ہو چکی ہے۔
محمد نواز کا بھی کھاتہ کھولا گیا اور انہیں ایک پرانے معاملے میں رابطوں میں عدم اطلاع پر ایک ماہ کی پابندی کی سزا اور 2 لاکھ روپے جرمانہ کیا اور اب قومی ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔
شاہ زیب حسن کا کیس ابھی زیر التوا ہے، فاسٹ بولر محمد سمیع سے اینٹی کرپشن یونٹ انٹرویو تو کر چکا ہے لیکن مزید اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوئی۔