28 دسمبر ، 2017
راولپنڈی: آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے وزیر ریلوے اور مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیان غیر ذمے دارانہ تھا اور غیر ارادی نہیں لگتا۔
راولپنڈی میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیان میں پاک فوج کی چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج منظم ادارہ ہے، آرمی چیف کے اشارے پر فوج وہاں دیکھنا شروع ہوجاتی ہے جہاں وہ چاہتے ہیں، آرمی آئین کے احترام کے عزم پرقائم ہے، ہر شہری بھی آئین کے دائرہ کار میں رہے۔
’کوئی سازش ہے تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے‘
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ایک سیاسی سوال ہے، اس پر جواب نہیں دوں گا، ملک میں سیاسی سرگرمی چل رہی ہے، ان کا اپنا دائرہ اختیار ہے، آرمی کسی بھی طرح سے اس پر رد عمل نہیں دینا چاہتی، عوام خود دیکھیں، اگر کوئی سازش ہے تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ 24 دسمبر کو سعد رفیق نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوری تسلسل کی حمایت کرتے ہیں، اس بات کی تائید کی جانی چاہیے اور اس کی تائید صرف ہمیں نہیں بلکہ انہیں بھی کرنی چاہیے جن پر ان کا حکم لازم ہے، انہیں بھی اس حکم کی اطاعت کرنی چاہیے۔
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جمہوری مزاج کے حامل شخص ہیں، جو ان سے ملتا ہے یہی بات کرتا ہے، یہ بہت خوش کن اور عمدہ بات ہے جسے سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ اس کو سپورٹ ہم بھی کرتے ہیں اور انہیں بھی کرنا چاہیے جو چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے ہیں۔ انہیں ہم مائنڈ نہیں کرتے لیکن اس کا سلسلہ اگر بند ہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی ہے، امریکا اور افغان حکام ہمارے تعاون سے بخوبی آگاہ ہیں اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا امریکی موقف کارآمد نہیں۔
اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے، ترجمان پاک فوج
میجر جنرل آصف غفور نے حال ہی میں امریکا کی جانب سے دی گئی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کس طرح کے اتحادی ہیں ہمیں نوٹس دیئے جارہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افواج پاکستان دوستوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں اور کرنا چاہتی ہیں لیکن عزت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے، ہم کسی بھی طرح کا تصادم نہیں چاہتے، ہم دوستوں سے تنازع نہیں چاہتے، پاکستان کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کا بھرپور مقابلہ کیا اور اپنی سرزمین میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا بلا تفریق صفایا کیا، یہ ایک مشکل سفر تھا لیکن قوم اور فوج نے یک جان ہوکر یہ فریضہ انجام دیا، لیکن خطرات ابھی ٹلے نہیں۔
ان کا کہنا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے اپنے مفاد میں لڑی، کسی ملک کے کہنے پر ڈو مور نہیں کرسکتے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا ڈراما کیا لیکن تحقیقات سے پتا چلا کہ بھارتی دعویٰ جھوٹ تھا، بھارت کی جانب سے کیے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے ان کی اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2017 کے دوران بھارتی اشتعال انگیزیوں میں تیزی آتی رہی اور بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہماری توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز رہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ کے دوران 'خوشحال بلوچستان پروگرام' سے متعلق بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ اس پروگرام میں 60 ارب روپے کے پروجیکٹ پلان کیے گئے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خوشحال بلوچستان کا بنیادی ڈھانچہ چار نکات پر مشتمل ہے جس میں اول، بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تیزی، دوئم بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی سیکیورٹی کی فراہمی، سوئم، بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور چہارم، بلوچستان میں مسترد کی گئی قوم پرست قوتوں کو بیرون ملک دشمن ایجنڈے سے علیحدہ کرنا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں آج کا کراچی بہت بہتر اور پر امن ہے اور یہاں امن و امان کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روزمرہ کے جرائم ویسے ہی چل رہے ہیں، وہ پولیس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور جیسے ہی پولیس کی استعداد اور کارکردگی بہتر ہوگی، جرائم کی شرح میں بھی کمی ہوگی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ کراچی کے حالات مزید بہتر ہوں گے، ایپکس کمیٹی کے ذریعے رینجرز اور پولیس کی کوآرڈینیشن میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
2017 میں عام شہریوں کی ہلاکتیں کم ہوئی، ترجمان پاک فوج
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 2017 میں عام شہریوں کی ہلاکتیں کم ہوگئی ہیں، ہم چاہتے ہیں ایک بھی ہلاکت نہ ہو لیکن اس کے لیے بہت سارے کام کرنے کی ضرورت ہے جو ہم کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ رد الفساد کے تحت ملک بھر میں انٹیلی جنس بیس آپریشن کیے، ضرب عضب کے تحت آپریشن ظاہری طور پر کیے گئے لیکن انٹیلی جنس بیس آپریشن نظر نہیں آتے، پورے سال ہزاروں کے قریب انٹیلی جنس بیس آپریشن کیے گئے جس سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے جو کمانڈر کے ساتھ روابط تھے وہ ٹوٹ گئے۔
96 فیصد آئی ڈی پی اپنے گھروں کو جا چکے، میجر جنرل آصف غفور
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 96 فیصد آئی ڈی پی اپنے گھر جاچکے ہیں، ان کی آبادکاری پر کام ہورہا ہے اور جو رہ گئے ہیں وہ جہاں آباد ہوگئے وہیں رہنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجا گیا، انہوں نے فوج میں بھی کمیشن حاصل کیا جس کی ایک بڑی تعداد ہے، فاٹا اور خیبرپختونخوا میں 800 کلو میٹر سڑک کا منصوبہ تھا جو 700 کلو میٹر سے زائد مکمل ہوچکی ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔
آصف غفور کا کہنا تھا کہ 2017 میں 7 بڑے دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑے گئے، خودکش حملہ آوروں کو گرفتار کیا گیا جن میں زیادہ تر افغانی خودکش حملہ آور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں ماہ وار 75 سے 80 تھریٹ وارننگز کی جاری کی گئیں اور مجموعی طور پر 483 دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنائے گئے، دہشت گردی کے واقعات میں بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں، اس لیے جو واقعات نہیں ہوتے اس کا عوام کو علم نہیں ہوتا۔
پاکستان میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 15 سے 16 سال میں جو کام کیا اس کا اثر موجود ہے، اگر اب بھی واقعات ہورہے ہیں تو دنیا کے بہت سارے ممالک بشمول یورپ تک میں ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں، ہم نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوتے دیکھا، انٹرنیشنل کھلاڑی بھی پاکستان آئے، ورلڈ الیون کی ٹیم پاکستان آئی اور سب سے اچھا ایونٹ میران شاہ میں پیس کپ کرایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کی حکومت ادارے اور افواج پاکستان کام کررہی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، پاکستان کے عوام کو ہم پر بھروسہ رہنا چاہیے، میڈیا بھی اینٹی پاکستان لائن سے کچھ نہ دکھائے، کوئی بھی خبر ہو اس کی تحقیق کرلیں، ففتھ جنریشن وار پروپیگنڈے سے دور رہیں، جو پاکستان مخالف ریاستی و غیر ریاستی قوتیں ہیں وہ ملک کے خلاف متحدہ ہوسکتی ہیں اس لیے ہمیں اتحاد کو قائم رکھنا چاہیے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ سی پیک صرف معاشی معاملہ نہیں، یہ پاکستان اور چین کی دو قوم کے درمیان معاشی تعلق ہے، جہاں تک فوج کا تعلق ہے ہماری ذمہ داری سی پیک کو سیکیورٹی دینا ہے، اس پر بڑے اقدامات اٹھائے ہیں، فوج نے سی پیک کی سیکیورٹی کی ضمانت دی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کلبھوشن بھارت کا حاضر سروس افسر ہے، اس کا کیس پاکستان میں دہشتگردی کا ہے، وہ پاکستان میں عدم استحکام کے لیے کام کررہا تھا جس کے ثبوت بھی ہیں، ہم نے اس پر مقدمہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کی اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کے لیے کوئی دباؤ نہیں تھا، اہل خانہ کو ملاقات کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت دی، اس کا مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ اگر دباؤ لینا ہوتو تو اسے قونصلر رسائی دیتے لیکن ایسا نہیں کیا، یہ سب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ دفتر خارجہ نے بھارت کو پہلے ہی بتایا تھا کہ کلبھوشن کے اہلخانہ کو سیکیورٹی چیک سے جانا پڑے گا، جس طرح ہمارے ان سے تعلقات ہیں ان کو سب کچھ پہلے بتایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کی رحم کی اپیل آرمی چیف کے پاس ہے اس پر جلد مزید معلومات دوں گا لیکن کلبھوشن کے اہل خانہ کی ملاقات سے اس اپیل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس پر جو آرمی چیف نے فیصلہ دینا ہے وہ دیں گے۔
سعد رفیق کا بیان غیر ذمہ دارانہ تھا، ترجمان پاک فوج
خواجہ سعد رفیق سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسے غیر ذمہ دارانہ بیان قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ سعد رفیق کابیان غیر ذمے دارانہ تھا، غیر ارادی نہیں لگتا، پاک فوج منظم ادارہ ہے، بیان میں پاک فوج کی چین آف کمانڈ کو نشانہ بنایا گیا، بیان کو تشویش سے دیکھتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جنہیں آئین بھی تحفظ دیتا ہے، آرمی آئین کے احترام کے عزم پر قائم ہے، ہرشہری بھی آئین کے دائرہ کار میں رہے اور آئین کا احترام کرے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ایک سیاسی سوال ہے، اس پر جواب نہیں دوں گا، ملک میں سیاسی سرگرمی چل رہی ہے، ان کا اپنا دائرہ اختیار ہے، آرمی کسی بھی طرح سے اس پر رد عمل نہیں دینا چاہتی، عوام خود دیکھیں، اگر کوئی سازش ہے تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے۔
سابق صدر مشرف کے بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ موجودہ آرمی چیف کا ترجمان ہوں، مشرف کے بیان پر ان سے ہی مزید وضاحت مانگنی چاہیے کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔
اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جہاں فوج کے جنرل کے سائن ہیں وہاں کہیں نہیں لکھا کہ کوئی گارنٹی دی گئی ہے، اس میں وساطت لکھا ہے، اس پر وزیراعظم نے بھی وضاحت دی ہے، گارنٹی والی کوئی بات نہیں، گارنٹرز پارٹی خود ہیں، جس قسم کا حساس مسئلہ تھا، وزیراعظم کی ہدایت پر اسے حل کیا گیا جب کہ دھرنے میں پیسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیئے گئے، کرائے کے لیے پیسے دیئے تو یہ کہنا کہ پیسے بانٹ رہے تھے، بال کی کھال نہ اتاریں۔
افغانستان سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اورافغانستان کے فوج کی سطح پر رابطے بہت اہم ہیں، آرمی چیف کے دورے کے بعد تعلقات میں بہتری آئی ہے، ان کے ڈی جی ایم او بھی پاکستان آئے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جو پاکستان کے اندر تھا وہ صاف کردیا، اس کو بہتری کی طرف جانے میں مزید وقت لگے گا جب کہ داعش کا مسئلہ افغانستان اور امریکا نے خود دیکھنا ہے ہم نے وہاں جاکر کام نہیں کرنا۔
’جو برا کام کرے گا وہ مارا جائے گا، جہاں بھی ہوگا مارا جائے گا‘
سینیٹ میں آرمی چیف کی بریفنگ سے متعلق سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف کا یہ اقدام تھا، ملاقات بہت اچھی تھی، ملک میں بہتری کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال ضروری ہے، ہم ملک میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر بھی آرمی چیف کی وفد کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے، اب یہ فیصلہ وزیراعظم نے لینا ہے، فاٹا میں استحکام کے لیے کچھ کاموں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
آخر میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جو برا کام کرے گا وہ مارا جائے گا، جہاں بھی ہوگا مارا جائے گا۔