03 جنوری ، 2018
واشنگٹن: امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان سے مطالبات کی نئی فہرست کا اعلان 24 سے 48 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ مخصوص اقدامات کی مزید تفصیلات سامنے لائیں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے الزام عائد کیا کہ 'ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مزید اقدامات کرسکتا ہے لیکن وہ اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہا، اسے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے'۔
سارا سینڈرز کے مطابق امریکا نے پاکستان کی 255 ملین ڈالرز (25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر) یعنی 28 ارب روپے کی فوجی امداد پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی امداد سے متعلق تمام آپشنز کھلے ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ماہ اس حوالے سے فیصلہ کریں گے۔
ترجمان وائٹ ہاؤس نے امریکا کے ایک بار پھر پاکستان کے پیچھے پڑنے کی وجہ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کا تسلسل بتایا، جس کا اعلان امریکی صدر نے گزشتہ سال اگست میں کیا تھا۔
پاکستان کی امداد روکنے کا تعلق دہشتگردوں کو پناہ دینے سے ہے، نکی ہیلے
دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے کا کہنا ہے کہ امریکا، پاکستان کی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد روک رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امداد روکنے کا تعلق فلسطین پر قرارداد سے نہیں بلکہ دہشتگردوں کو پناہ دینے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کئی سال ڈبل گیم کھیلتارہا جو امریکا کیلئے ناقابل قبول ہے۔
’وہ ہمارے ساتھ کام بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو افغانستان میں ہمارے فوجیوں پر حملے کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے کہیں زیادہ تعاون چاہتے ہیں۔
’ایران کے معاملے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے‘
نکی ہیلے نے اس موقع پر کہا ہے کہ ایران میں جاری حالیہ پر تشدد مظاہروں کے معاملے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے معاملے پر آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ میں ضرور آواز اٹھنی چاہیے، ہم اس سلسلے میں جلد ہنگامی اجلاس طلب کریں گے۔
نکی ہیلے نے کہا کہ ایرانی عوام آزادی کے لیے پرزور جدوجہد کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ 6 روز سے ایران کے مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور امریکا کھل کر مظاہرین کی حمایت کررہے ہیں۔
امریکا نے امداد روکے جانے کے حوالے سے پاکستان کو آگاہ کردیا
وزارت خزانہ کے ترجمان نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو امریکا کی جانب سے امداد روکے جانے کا پہلے سے اندازہ تھا، اس لیے پہلے سے متبادل انتظامات کر رکھے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی امداد کی بندش سے پاکستان کی مالی ضروریات متاثر نہیں ہوں گی۔
پاکستان کا جلد بازی میں کوئی قدم نہ اٹھانے کا فیصلہ
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ موقف اپناتے ہوئے کہا کہ پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی، قربانیوں اور شہداء کے خاندانوں کے درد کا بےحسی سے مالی قدر سے موازنہ کرنا ممکن نہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے کے مطابق پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ موقف اپنایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف غیر متزلزل جنگ لڑی اور قیام امن کے لیے پاکستان نے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی۔
قومی سلامتی کمیٹی نے مشترکہ موقف اپنایا کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کی حفاظت اور اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا جانتی ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔
خیال رہے کہ 2016 میں امریکی کانگریس نے پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کا امداد پیکج منظور کیا تھا اور مذکورہ رقم اسی پیکج کی ایک قسط ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 برسوں میں اسلام آباد کو احمقوں کی طرح 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے لیکن بدلے میں اسے جھوٹ اور دھوکہ ملا۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ 'امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا'۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ 'پاکستان نے ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھا، جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے رہے پاکستان نے انہیں محفوظ پناہ گاہیں دیں اور ہماری بہت کم معاونت کی، لیکن اب مزید نہیں'۔