پاکستان
Time 25 جنوری ، 2018

ڈی این اے کیا ہوتا ہے؟

قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہے—۔فائل فوٹو 

رواں ماہ کے آغاز میں صوبہ پنجاب کے ضلع قصور سے 7 سالہ زینب کے اغواء اور زیادتی کے بعد قتل کے واقعے نے جہاں پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا، وہیں تحقیقاتی ادارے بھی حرکت میں آئے اور انہوں نے تفتیش کے مختلف طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے قاتل کی تلاش شروع کی۔

تحقیقاتی اداروں نے زینب کے قتل کی کڑیاں قصور میں اس سے قبل زیادتی کے بعد قتل کی گئی بچیوں کے کیسز سے ملانا شروع کیں اور ان کی تحقیق کا دارومدار ڈی این اے ٹیسٹ پر ٹھہرا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ معصوم زینب کے قتل میں ملوث ملزم عمران کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق کے بعد گرفتار کیا گیا۔

ہم سب ہی گذشتہ کافی دنوں سے (بلکہ اُس سے قبل بھی) ڈی این اے ٹیسٹ کے بارے میں سن اور پڑھ چکے ہیں، لیکن یہ ڈی این اے ٹیسٹ دراصل ہوتا کیا ہے؟ آئیے نظر ڈالتے ہیں:

ڈی این اے

اس طبی اصطلاح کو ہم آسان الفاظ میں کچھ یوں بیان کرسکتے ہیں کہ انسانی جسم لاتعداد خلیات یعنی سیلز کا مجموعہ ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے جسم کا ہر ایک سیل ایک مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔

ڈی این اے یعنی ’ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ‘ کسی بھی انسان کا وہ مخصوص جینیاتی کوڈ ہے، جس کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور یہ معلومات اس کی ظاہری شکل و صورت، زندگی، تاریخ اور شناخت پر مشتمل ہوتی ہیں۔

قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہے۔

دنیا کا پہلا ڈی این اے ٹیسٹ

ڈی این اے ٹیسٹ کو دنیا میں پہلی مرتبہ پروفیسر جیفریز نے 1986 میں ایک جرم کی تحقیقات کے دوران استعمال کیا تھا۔

پروفیسر جیفریز نے برطانیہ کی کاؤنٹی لیسسٹرشائر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 1983 اور 1986 میں ہونے والے زیادتی اور قتل کے 2 ملزمان کی انگلیوں کے نشانات کے ذریعے ڈی این اے ٹیسٹ کیا تھا، اس ٹیسٹ کے ذریعے نہ صرف دونوں جرائم کے آپس میں تعلق کا علم ہوا اور اصل ملزم پکڑا گیا بلکہ ایک معصوم شخص بھی بچ گیا، جسے قتل کے الزام میں پولیس نے پکڑ رکھا تھا۔

تحقیقاتی ادارے مختلف جرائم خصوصاً زیادتی، قتل یا دیگر کیسز میں اکثر وبیشتر ڈی این اے ٹیسٹ پر انحصار کرتے ہیں، جس کے لیے بالوں، خون، ہڈیوں اور گوشت کے نمونے لیے جاتے ہیں جبکہ انگلیوں کے نشانات (فنگرپرنٹس) کے ذریعے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے دوران جینیاتی کوڈ کی تقابلی جانچ پڑتال سے اس بات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ دو اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے یا نہیں، خصوصاً ولدیت کی تصدیق یا زیادتی کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے، جس کے لیے کسی بھی شخص کے نمونے لے کر انہیں فرانزک لیبارٹری بھیجا جاتا ہے، جہاں انہیں جینیاتی مشاہدے کے لیے استعمال ہونے والی مختلف مشینوں سے گزار کر نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، جسے ڈی این اے پروفائل کہا جاتا ہے۔

اس کی مثال ہم زینب قتل کیس سے اس طرح لے سکتے ہیں کہ بچی کے قتل کے بعد تحقیقاتی اداروں نے ضلع کے کئی سو افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے اور پھر ان سے ڈی این اے پروفائل تیار کیا گیا، جنہیں مقتول بچی کے جسم سے لیے گئے ڈی این اے نمونوں سے میچ کیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ زینب سے زیادتی اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے والا ملزم کون تھا۔

تاہم اس سلسلے میں نہایت احتیاط سے کام لیا جانا ضروری ہے، کیونکہ اکثر کیسز میں شواہد ضائع ہوجانے سے ملزمان بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ

پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے واحد لیبارٹری پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری ہے، جہاں پورے ملک سے لیے گئے ڈی این اے کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

مزید خبریں :