Time 24 اپریل ، 2018
انٹرٹینمنٹ

’موٹر سائیکل گرل‘: کچھ حقیقت کچھ فسانہ

— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر

سب سے پہلے سیدھی بات کہ فلم ’موٹر سائیکل گرل‘ فیملی کے ساتھ ’دیکھنے‘ والی فلم ہے۔ سیدھی بات کے بعد اب بہت سارے سوالات، کیا فلم کیک سے اچھی ہے ؟ کیا فلم ون گرل ٹو وہیلز والی ”زینتھ عرفان“ کی حقیقی کہانی پر بنائی گئی ہے؟ فلم کے رائٹر اورڈایئر یکٹر نے فلم بنانے کیلئے فکشن کا کتنا سہارا لیا؟

کیا سوہائے نے بہت اچھا کام کیا ہے؟ کیا اس سے پہلے پاکستان میں ویمین اورینٹیڈ فلمیں بنی ہی نہیں؟ کیا فلم میں لوکیشن ہی لوکیشن ہے؟ کیا فلم میں برانڈز بہت ضروری ہیں؟ فلم میں پیغام کتنا ضروری ہے؟ فلم دل کے کتنے قریب ہے؟ فلم کا مین آف دی میچ کون ہے؟

آئیے مل کر اپنے زاویے سے فلم کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ دوسروں کی رائے سے مختلف ہوسکتا ہے۔ فلم’موٹر سائیکل گرل‘ دیکھنے کیلئے جانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں تو ساری کہانی پہلے سے معلوم ہے اور وہ اُس کہانی کو سینما کی بڑی اسکرین پر دیکھنے آئے ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں۔

فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر عدنان سرور نے زینتھ عرفان کی کہانی میں سسپنس سمیت کئی فلمی مصالحے ڈالے کہیں وہ کامیاب لیکن کہیں کمزور سمجھوتے کرگئے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ زینتھ اپنے سفر پر اکیلی نہیں تھیں اور یہ بات زینتھ نے فلم کی ریلیز سے پہلے بھی کئی بار دہرائی اور اس سے بڑی بات فلم بنانے والوں نے بھی نہیں چھپائی۔ فلم شروع ہونے سے پہلے  ’ڈس کلیمر‘ میں بھی یہ بات تحریر کی شکل میں دکھائی گئی کہ ’کچھ واقعات حقیقی زندگی سے متاثر کچھ فکشن بنا کر‘ فلم کو جوڑا گیا۔

اداکارہ سوہائے کا انداز — فوٹو؛ بشکتیہ فلم فیس بک آفیشل اکاؤنٹ 

عدنان نے زینتھ کی کہانی کو اپنے زاویے سے پیش کیا ہے، فلم میں زینتھ یعنی سوہائے اپنے مرحوم بابا کا خواب پورا کرنے کیلئے لاہور سے خنجراب تک اکیلے موٹر سائیکل پر سفر کرتی ہے، فلم میں سفر اور منزل نہیں اس سے پہلے کی مشکلات کو ’ہائی لائٹ‘ کیا گیا ہے۔ 

ہر فلم میکر کا اپنا زاویہ اور سوچ ہوتی ہے تو شاید کوئی اور فلم میکر ہوتا تو وہ زینتھ اور بھائی سلطان دونوں سے ’متاثر‘ ہو کر فلم بناتا لیکن غالباََ اس فلم کو ایک ’میسج‘ اور” کمرشل“ بنانے کیلئے فکشن زیادہ ڈال دیا گیا۔

کسی کی اصل زندگی پر فلم بنانا آسان نہیں اور اگر صرف زینتھ کے کردار اور سفر کی بات کی جائے تو کیا رائٹر ڈائریکٹر نے ان کی پہلے سفر والی موٹر بائیک جیسی موٹر سائیکل استعمال کی ؟ کیا دونوں کی نمبر پلیٹ بھی ایک ہی تھی؟ کیا سوہائے نے فلم کیلئے صرف بائیک چلانی سیکھی اور زینتھ کی طرح کے کپڑے پہنے یا ان کی طرح بول چال اور انداز بھی اپنایا۔

سوہائے کا ’خَنجراب‘ تو شایتھ زینتھ والا ہو لیکن انھوں نے لفظ لاہور اور عورت زینتھ کے انداز میں نہیں بولے۔

— فوٹو: فلم فیس بک اکاؤنٹ 

سوہائے کے لیے آفس اور منگنی والے ’فِکشن‘ سے دیکھنے والوں کیلئے ہمدردی تو بڑھی لیکن آفس سے ’ٹرمینیشن‘ اور دفتر کے ساتھی کی ”ریجیکشن“ کے بعد خود بے بسی میں منگنی کیلئے راضی ہونا اور پھر منگیتر کی اجازت سے خنجراب جانا اور پھر جس وجہ سے وہ منگیتر اکیلا سوہائے کو لینے ہنزہ آتا ہے اور جو وہاں ہوتا ہے وہ ”فِکشن“ ہضم نہیں ہوتا کیونکہ یہ سوہائے کے کردار کی خود غرضی کو ظاہر کرتا ہے۔ 

دوسری طرف امریکی پاکستانی ’انویسٹمنٹ بینکر‘ کا کوئی منفی پہلو بھی نہیں دکھایا گیا جس سے اس کیخلاف دیکھنے والے نفرت محسوس کرتے جیسے اس کی وہاں خفیہ شادی یا کچھ اور۔

عدنان سرور ایک ”اسمارٹ“ رائٹر، ڈائریکٹر اور ایکٹر ہیں یہی وجہ ہے شاید فلم میں سب سے ”گڈ لکنگ “وہ خود نظر آتے ہیں، ان کا کردار پوری فلم میں دیکھنے والوں میں”الجھن“ پیدا کرتا ہے، ان کا کردار ڈھابے میں پیچھے بیٹھے ’ڈی فوکس‘ اور فوکس ہوتا ہو یا بائیک پر ٹشن دکھاتا شاعری کرتا لیکچر دیتا اور یہاں تک کے فلمی انداز میں بائیک دور روک کر پتھروں پر شاہ رخ والے انداز میں انٹری دیتا ہوا شدید” بے چینی“ پیدا کرتا ہے۔

اداکارہ فلم کی تشہیر کے دوران — فوٹو: سوشل میڈیا

سب دیکھنے والے سوچتے اور بولتے ہیں ’یار یہ کون ڈرامہ ہے‘ مگر آخر کے 5 منٹ میں ساری محبت یہی کردار ”چُرا“ لے جاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ دی اینڈ سے پہلے لیکچر کا سین آتے ہی فلم دیکھنے والے آدھے لوگ اپنی گاڑی کی وجہ سے یہ سوچ کر سینیما سے چلے جاتے ہیں کہ کہانی تو اب ختم ہوچکی یہ لیکچر کون سنے لیکن ڈائریکٹر اپنی بند مٹھی بالکل آخر ی سین میں کھولتا ہے یہی فلم کا سب سے بڑا سرپرائز ہے جو یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ فلم دل کے قریب ہے۔

فلم میں پرفارمنس کی بات ہو تو ’مین آف دی میچ‘ سرمد کھوسٹ ہیں دیکھنے والوں کو ان کی ’لعنت‘ بھی بھلی لگتی ہے۔ ہمارے خیال سے دوسرا نمبر سوہائے کی دوست کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ کا آتا ہے۔ سرمد اور علی کاظمی دونوں نے جو کردار نبھائے ہیں وہ ہر اداکار شاید کرنا بھی پسند نہ کرے لیکن دونوں نے بہادری دکھائی۔

ثمینہ پیرزادہ اور شمیم ہلالی تو ہیں ہی سینئر اسٹار انھوں نے اپنے اپنے کرداروں میں اثر چھوڑا۔

فلم کی حقیقی کردار کی زیتھ عرفان کی دوران سفر ایک تصویر — بشکریہ زینتھ عرفان فیس بک

سوہائے نے اِس فلم میں اچھا کام کیا ہے انھوں نے اس کردار کیلئے محنت بھی اچھی خاصی کی لیکن ناپ تول کی بات ہو تو انھیں کردار میں اسی طرح ڈوب جانا چاہیے تھا جس طرح مہوش حیات نے ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کی اور سب ساتھی اداکار اور سپر اسٹارز پر حاوی نظر آئیں کیونکہ موٹر سائیکل گرل جیسے کردار بار بار نہیں ملتے۔ 

سوہائے اس سے پہلے ’رانگ نمبر‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ جیسی کامیڈی مصالحہ اور سپر ہٹ فلموں میں کام کرچکی ہیں لیکن یہ فلم ان کے کیریئر کو بطور کردار آگے ضرور بڑھائے گی۔

فلم ”کیک“ سے اچھی ہے یا نہیں یہ دونوں فلمیں دیکھنے والے خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ دونوں فلمیں ویمین اور فیملی اورینٹیڈ ہیں لیکن دونوں کے بجٹ اور پروموشن میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی فرق ہے جو صرف پاکستان میں کمائی کے لحاظ سے موٹر سائیکل گرل کو”کیک“ سے زیادہ اچھا بزنس کرائے گا۔ فلم دیکھتے ہوئے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اس فلم کو بھی اگر کیک جیسا پروڈیوسر مل جاتا یا اتنا پیسہ لگ جاتا تو فلم کی پروڈکشن کافی بہتر ہوسکتی تھی۔

فلم کا ایک منظر — فوٹو: اسکرین گریب

کم اسکرین، لوگوں کا فلم دیکھنے کا رجحان، مہنگے ٹکٹ، بڑا رسک مارجن اور باقی رائٹس کے پیسے کم ہونے کی وجہ سے یقیناً فلم میں برانڈز کی مارکیٹنگ بلکہ اشتہاروں کو برداشت کیا جانا چاہیے اور یہ ان برانڈز کا بھی بڑا پن ہے کہ وہ فلموں کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن کہیں کہیں سپورٹ اور مجبور کرنے میں بھی فرق نظر آجاتا ہے۔

اب جس طرح فلم کے ایک پروڈیوسر کو دوسری فلموں کو”آئٹم سانگ“ پر اعتراض ہے اس طرح کا اعتراض کوئی اُن کی فلم میں ”جبرا ایڈ“‘ پر بھی کرسکتا ہے حالانکہ حالات کے حساب سے دونوں کا استعمال کرنا غلط نہیں کیونکہ ایک طرف فلم کی لاگت کی مجبوری ہے تو دوسری طرف کہانی کی ڈیمانڈ بھی ہوسکتی ہے اور سب سے بڑی بات فلم بنانے والوں کی مرضی بھی۔

فلم کا ٹریٹمنٹ بہت سلو ہے اور یہ اچھی خاصی ایڈیٹ بھی کی جاسکتی تھی اسی پہلو کو شاید فلم کے ”نان لینئر“ اسٹائل یعنی دو تین زمانے کی انٹر کٹنگ سے قابو رکھنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ فلم کے گانے بہت موزوں اور پر اثر ہیں لیکن بیک گراؤنڈ اسکور متاثر نہیں کرتا، فلم کے شروع میں جب سوہائے آفس جانے کیلئے اٹھتی ہے اس وقت بیک گراؤنڈ میوزک کا ’لیول‘ بھی زیاد ہ ہے، کہیں کہیں جب اس کا استعمال ضروری تھا وہاں بیک گراؤنڈ میوزک غائب بھی ہے۔

علی کاظمی جب پہلی بار سوہائے کے گھر آتے ہیں ایک ”شاٹ“ میں ان کے ہونٹ ہلتے ہیں لیکن آواز نہیں آتی اب پتہ نہیں یہ سینما کا فالٹ تھا، ایڈیٹنگ کا یا ہماری قسمت کا۔

— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر

فلم میں لوکیشن کم اور ایموشن زیادہ ہیں اور یہ اچھا ہے کیونکہ اس طرح کی لوکیشن فلم بین ’چلے تھے ساتھ‘ میں بھی دیکھ چکے تھے۔ فلم میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلو دکھائے گئے کہ کس طرح زینتھ نے ان کو استعمال کرکے اپنے فینز کے دلوں میں گھر بنایا دوسروں کو حوصلہ دلایا اور کس طرح ان کو پسند نہ کرنے والے ان کو نازیبا الفاظ سے پکارتے تھے۔

ظاہر ہے ایک فلم میں سب کچھ سمونا اور ہر ایک کے زاویے کے حساب کو دیکھنا نا ممکن ہے پھر بھی ایک طرف عدنان نے وین میں ہراساں، ڈرائیور کا رویہ، ڈھابے کی حالت، سوہائے کا موٹر بائیک پر وین سے آگے نکلتے ہوئے اشارہ سب منظر ’شائستگی‘ سے سمجھا بھی دیئے۔

— فوٹو: 

دوسری طرف گجرات کے باتھ روم کی آوازوں کا لمبا سین اور علی کاظمی کا اپنے بچپن کی باتوں کا خواتین کے سامنے مخصوص الفاظ کے ساتھ سنانا کچھ اچھا نہیں لگا۔  ایک طرف ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں پرفیوم خریدنے کے دوران فلم دیکھنے والوں کو ”میسج“ دیا گیا اور پوری فلم میں ”لائسنس“ پر یا اس کی اہمیت پر ایک جملہ بھی نہیں۔ 

ہنزہ کے ’لٹریسی ریٹ‘ اور وہاں پر خواتین کی برابری سے سب آگاہ ہیں خاص طور پر فلم کا ”ٹارگٹ آڈینس“ لیکن یہی فلم بین وجاہت ملک کو بطور ہنزہ کا باشندہ کیسے تسلیم کرے خاص طور پر جب پورا گاؤں دکھایا جاتا ہے۔

یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ غالباََ فلم کا سب سے زوردار ڈائیلاگ بھی وجاہت ملک کی جھولی میں آگرا جس میں زینتھ عرفان اور فلم کا فلسفہ بھی ہے اور پیغام بھی  ’کیا ہے یہ امیزنگ کہ ہم یہاں برابری سے رہتے ہیں ،اپنی بیوی اپنی بیٹی اپنی بہن کو آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ان پر فخر کرتے ہیں، ہم اتنے چھوٹے لوگ نہیں کہ اپنی عورت کو اپنا غرور بھی نہ بناسکیں“۔

فلم کو ’نیو سینما‘ بھی کہا جارہا ہے اب اس ’نیو سینما‘ کا مطلب اگر ’کیک‘ اور ’موٹر سائیکل گرل‘ ہے تو درست نہیں۔ فلم تو وہی کامیاب ہے جو کم از کم ایک ہفتے تو کیپری ، نیو پلیکس اور ایٹریم جیسے سینما ؤں میں کامیابی سے چلے، باقی سب جانتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ مصالحہ ’باغی‘ میں کچھ نیا نہیں تھا لیکن فلم نے ٹائیگر شیروف کی موجودگی میں ہی پاکستان میں ریکارڈ بزنس کیا۔

اب کوئی باغی کو پرانا سینما بولے یا فارمولا پبلک تو شاید سنیما پر یہی چاہتی ہے کیونکہ ’پبلک‘ جو ہے وہ سب جانتی ہے۔


نوٹ:

1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔

2۔۔ ہر فلم سنیما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔

5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔

6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔

7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔

مزید خبریں :