25 اپریل ، 2018
خبردار ’سنجو‘ کی پہلی جھلک مت دیکھئے گا، ہرگز نہیں دیکھیئے گا۔ ’منا بھائی سیریز‘، ’تھری ایڈیٹس‘ اور ’پی کے‘ جیسی بڑی، کامیاب اور کلاسک فلموں کے رائٹر اور ڈائریکٹر راج کمار ہیرانی سے بڑی غلطی ہوگئی، ایسی غلطی جو انھیں تو نہیں کرنی چاہیے تھی۔
راجو ٹیزر کے ’شروع‘ میں سب سے اہم بات لگانا اور بتانا بھول گئے کہ انہیں سب سے پہلے باآواز بلند ’ڈس کلیمر‘ لگانا چاہیے تھا جس میں لکھا ہونا چاہیے تھا، خبردار!اس ٹیزر سے پہلے اپنے بے حدضروری کام نمٹالیں، سیٹ بیلٹ باندھ لیں یا کسی مضبوط چیز کا سہارا لے لیں کیونکہ ٹیزر دیکھنے کے بعد آپ باقی سب بھول جائیں گے جو اس فلم کا ٹیزر دیکھے گا وہ اِسی کا ہوجائے گا۔
وہ پھر دیوانہ وار ٹیزر دوبارہ دیکھے گا تو کچھ دیر کیلئے پتھر کا ہوجائے گا، پھر تیسری بار دیکھے گا تو سب کو بتائے گا پھر فیس بک پر لگائے گا پھر واٹس ایپ پر شیئر کر ے گا، ایک منٹ اور کچھ سیکنڈز کے ٹیزر میں ایسی گرفت ایسا جادو ایسا منتر ایسا جھٹکا ایسا کام ایسے الفاظ اور ایسی پرفارمنس پہلے شاید ہی کسی نے دیکھی ہوں۔
سنجو ’نام‘ ہے سنجے بابا کی کہانی ہے وہی سنجو جس کی اب تک کی پوری زندگی سانپ کی ’جنگ‘ہے کبھی اوپر کبھی ’اچانک‘ دھڑام سے نیچے، داستان ہے اس بگڑے شہزادے کی جو 22 سال کا تھا تو’گمراہ‘ ہو کر اتنی منشیات استعمال کی کہ پھیپھڑے ختم ہوگئے اور ڈاکٹرز نے بھی اس کا چیپٹر کلوز کردیا۔
ہمت ایسی کہ نہ صرف ’زندہ‘ رہا بلکہ ’راکی‘ بن کر ڈاکٹرز کو بھی غلط ثابت کیا اور ایسا ’طاقتور‘ ہوا کے لوگ محمد علی سے موازنہ کرنے لگے۔ ’لائف ہو تو ایسی‘ کہ چارٹرڈ طیاروں میں اکیلے وی آئی پی سفر بے شمار کیے لیکن حالات ایسے بھی دیکھے جب بس کا ’مسافر‘ بننے کیلئے ایک ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ’سڑک‘ پر بیٹھ کر بھیک بھی مانگی۔
دنیا کے مہنگے ترین شہروں کے مہنگے ترین ہوٹل میں رہنے والا ’ہیرو‘ جو اپنے کمرے کی کھڑکیوں سے پورا شہر دیکھتا تھا لیکن جب جیل جا کر ’کھل نائیک‘ بنا تو ایسی کال کوٹھری میں رہنا پڑا جہاں کھڑکی تو دور کی بات غالباََ روشنی کیلئے چھوٹا سا سوراخ بھی نہیں تھا۔
یہ ’کارتوس‘بے بس ہوا تو پولیس والوں نے جھانپڑ بھی مارا، خطرہ ایسا کہ انڈر ورلڈ نے مروانے کیلئے سپاری بھی نکالی، ’لَک‘ ایسی کہ کلائی پر سجنے والی مہنگی خوبصورت گھڑیاں بھی پہنیں وقت پلٹا تو ان گھڑیوں کی جگہ قیدی والی ہتھکڑیاں بھی پہنیں۔
300سے زائد ’محبوبہ‘کے ’ساجن‘ بننے نے ایسے حالات نہیں دکھائے جو ’خطروں کے کھلاڑی‘ کو ایک ’ہتھیار‘ اے کے 56 رائفل کی وجہ سے جھیلنے پڑے۔
کتنی آسانی سے جھٹ پھٹ راج کمار ہیرانی اور ابھیجات جوشی کی تحریر کو رنبیر کپور سنجے دت بن کر ایک منٹ میں آ پ کے دل میں بسادیتے ہیں۔ اِسی ایک منٹ کے بعد نوجوان سنجے کے روپ والے رنبیر کپور ٹیزر دیکھنے والوں کو ’خبردار‘ کرتے ہیں کہ ’سب سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے‘ لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے کیونکہ ٹیزر تو پہلے فریم سے دیکھنے والوں کو قابو کرچکا ہوتا ہے۔
قابو ہونے والے بھی دیوانے ہوچکے ہوتے ہیں کہ شکنجہ اور کَس دیا جائے۔
ٹیزر میں سنجے دت کی زندگی کے مختلف دور اور اسٹائل دکھائے گئے، ٹیزر میں منا بھائی، راکی، کھل نائیک، سڑک، واستو اور ابھی آخری بار جیل سے باہر آنے والے سنجے دت پر فوکس کیا گیا ہے۔
فلم میں سنجے دت کا کردار رنبیر کپور نے ادا کیا ہے، رنبیر کی فلمیں سپر ہٹ ہو یا فلاپ ان کی اداکاری لاجواب ہوتی ہے۔ ’راک اسٹار‘، ’تماشا‘ اور ’جگا جاسوس‘ سمیت وہ جو کردار ادا کرتے ہیں اس کو اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں، سنجے دت کا کردار ادا کرنا بڑے بڑے ہیروز کیلئے آسان نہیں ہوتا۔
رنبیر کپور کو چھوڑ کر عامر خان ہی ایسے اداکار ہیں جو اپنی محنت سے کردار میں ڈھل جاتے ہیں اب چاہے اس میں دن لگے یا سال، عامر خان تو اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے سنجے نہیں بن سکتے تھے لیکن رنبیر کا قد کاٹھ بھی سنجے جیسا ہے اور شکل کے کافی ”فیچرز“ بھی، پھر ’پی کے‘ میں بھی تو عامر خان اپنا جانشین رنبیر کو ہی بنا کر گئے تھے۔
رنبیر نے مسلسل محنت کرکے نہ صرف اپنے جسم کو سنجے کی طرح بنایا بلکہ ان کی طرح بول چال کو اپنایا اور سنجے کی روح کو اپنے اندر بسالیا باقی کام میک اپ آرٹسٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر نے پورا کردیا۔
ہر دور کا سنجے بننے کیلئے رنبیر اور راجو کمار اینڈ ٹیم نے کتنی محنت کی ہوگی اس پر ایک کتاب بھی لکھی جائے تو کم ہوگا۔ ایک اور دلچسپ اتفاق کہ رنبیر اور سنجے دت دونوں اسٹار کڈز ہیں ایک نرگس جی اور سنیل دت کے بیٹے ہیں تو دوسرے رشی کپور اور نیتو سنگھ کے، دونوں کی گرل فرینڈز کی کہانی بھی لگ بھگ ایک ہی ہے، ٹیزر دیکھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے سامنے سنجے ہیں یا رنبیر۔
ڈائریکٹر اور رائٹر راج کمار ہیرانی تو ہیں ہی ’استادوں کے استاد‘ خود اتنی محنت کرتے ہیں، اتنا ٹائم لگاتے ہیں اور ایسا کام کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی مشکل بات آسانی سے چٹکی بجا کر سمجھا دیتے ہیں۔
منا بھائی سیریز، تھری ایڈیٹس اورپی کے ایک ایک سین، مکالمے، کردار سب کو زبانی یاد ہیں، مسکراہٹ ہو یا آنسو ان کی فلمیں جذبات سے ’فُل‘ ہوتی ہیں دل فلم سے ایسا جُڑتا ہے کہ کبھی الگ نہیں ہوتا۔
فلم میں کتنی ہی متنازعہ بات ہو وہ ایسے پیش کی جاتی ہے کہ 8 سے 80 سال سب مَن لگا کر ان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں، ان کی ٹیم کمال کی ہے جن میں سب سے اوپر ان کے ساتھی رائٹر ابھیجات جوشی کا نام آتا ہے۔
راجو کا کہنا ہے کہ سنجے کی کہانی پر فلم بنانا آسان نہیں تھا کیونکہ سنجے ایسی شخصیت ہیں جن کو دنیا پہلے سے بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ راجو کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ وہ اپنی باقی فلموں کی طرح اس فلم میں وہ آزاد نہیں بلکہ محدود تھے کیونکہ ان کو سنجے کی زندگی کی باؤنڈری میں رہتے ہوئے کام کرنا تھا۔
سنجے دت کی زندگی بیک وقت اتنی مشکل اور خوبصورت ہے کہ انھیں بے شمار واقعات فلم کیلئے چھوڑنے پڑے ان میں سے ایک وہ ہے جب اوباما نے امریکی صدر بننے سے پہلے 2004 میں شکاگو میں ’منا بھائی‘ کی مقبولیت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔
تین بار شادی، سیکڑوں گرل فرینڈز، بہت کم لوگوں سے دوستی کچھ سے دوستی کے بعد ناراضی کچھ سے ہمیشہ کی دشمنی، بار بار جیل کی سیر، سنجو( ون مین مینی لائیوز) کا ٹیزر دیکھنے اور سننے کے بعد سنجے کی کہانی کا انتظار 29 جون تک تو کرنا ہی ہوگا۔
راجو اور سنجو کی دوستی بہت پرانی ہے، شاہ رخ نے اپنی کمر کے درد کی وجہ سے منا بھائی چھوڑی اور اس کے بعد سنجے دت ایسے منا بھائی بنے کہ راجو نے انھیں اپنی اب تک چار میں تین فلموں میں کاسٹ کیا۔ پی کے ’وائرس‘ یعنی بمن ایرانی اب تک واحد ایسے اداکار ہیں جو راجو کی ہر فلم میں نظر آئے ہیں اور سنجو میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
فلم میں سنجے کے ساتھ ان کے دوست سلمان خان اور گرل فرینڈ مادھوری بھی ہیں آئیے جانتے ہیں کون کون کون سا کردار کون سا اداکار کر رہا ہے۔
حقیقی کردار ۔۔۔ حیثیت ۔۔۔۔ اداکار
سلمان خان ۔۔۔ دوست/سپر اسٹار ۔۔۔ جم ساربھ
سنیل دت ۔۔۔ والد/اداکار/سیاستدان ۔۔۔ پاریش راول
نرگس ۔۔۔ والدہ/سپر اسٹار ۔۔۔ منیشا کوئرالہ
مادھوری ۔۔۔ گرل فرینڈ۔۔۔ کرشمہ ٹنہ
مانیتا دت ۔۔۔ تیسری بیوی۔۔۔ دیا مرزا
سنجے گپتا ۔۔۔ سابق دوست/ڈائریکٹر۔۔۔ بمن ایرانی
ٹینا منیم ۔۔۔ پہلی ہیروئن۔۔۔ سونم کپور
کمار گورو ۔۔۔ بہنوئی/ہیرو۔۔۔ وکی کوشل
پوجا بھٹ ۔۔۔ ہیروئن/دوست۔۔ عالیہ بھٹ
ٹھہریئے اپنی رائے کا اظہار کرتے جائیں:
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اورایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں، بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں،کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے،جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال،ڈھائی سو سال،ڈھائی سال،ڈھائی مہینے،ڈھائی ہفتے،ڈھائی دن تو دور کی بات دوگھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔