این آر اوکو قانون بنانے میں کوئی کردار نہیں: زرداری کا سپریم کورٹ میں جواب

سپریم کورٹ نے 24 اپریل کو سابق صدور مشرف اور زرداری کو نوٹس جاری کیے تھے: فوٹو/ فائل

اسلام آباد: سابق صدر آصف زرداری نے این آر او کیس میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہےکہ قانون بنانے میں ان کا کوئی کردار نہیں جب کہ درخواست انہیں بدنام کرنے کی سازش ہے۔

سپریم کورٹ میں این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے 24 اپریل کو سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا لہٰذا قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے۔

آصف زرداری کا جواب

جیونیوز کےمطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے خلاف فیروز شاہ گیلانی نے درخواست دائر کی جس پر انہوں نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔

آصف زرداری نے اپنے جواب میں کہا ہےکہ این آر او کو قانون بنانے میں ان کا کوئی کردار نہیں، 2007 میں این آر او قانون کے تحت مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی تاہم عدالت نے این آر او کالعدم قرار دیا تو بند کیسز دوبارہ کھل گئے۔

سابق صدر کے جواب میں مزید کہا گیاہےکہ ان پر خزانہ لوٹنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا، فوج داری مقدمات میں عدالتوں سے رہائی ملی، ان پر مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے، درخواست انہیں اور بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

این آر او کیا ہے؟

این آر او دستاویز کا عکس

سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جسے این آر او کہا جاتا ہے، 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا جب کہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے۔

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں جب کہ اسی قانون کے تحت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہوسکی تھی۔

این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔

مزید خبریں :