پاکستان
Time 12 جولائی ، 2018

سپریم کورٹ کی اسحاق ڈار کی فوری واپسی کے لیے اقدامات کی ہدایت


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے لیے سیکرٹری داخلہ کو فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی کیس میں اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آج کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا اسحاق ڈار تشریف لائے ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ موجود نہیں۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ بتائیں اسحاق ڈار کو کیسے واپس لایا جائے اور اگر کوئی عدالت کے بلاوے پر نہ آئے تو کیا کرنا پڑے گا جس پر سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ کئی طریقوں سے پاسپورٹ منسوخ ہوسکتا ہے جب کہ شو کاز نوٹس دے کر پاسپورٹ کینسل کیا جاتا ہے۔

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ ہو چکے ہیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا تو یہ بہانہ بھی ہوگا کہ اب کیسے آیا جائے۔

 جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے کہ لوگوں کو واپس لایا جائے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر بھی نہ آئیں تو کیا ہم بے بس ہو جائیں، ہمیں ملزم کی بیرون ملک سے وطن واپسی سے متعلق بھی قانون چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تین ماہ پہلے اسحاق ڈار کو نیب عدالت نے اشتہاری قرار دیا، حکومت نے کچھ کیا، اُس وقت کے وزیر اعظم نے اشتہاری سے ملاقات کی، کیا یہ ہے قانون کی بالادستی۔

سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے فوری اقدامات کرنے اور تمام اتھارٹیز کو سیکریٹری داخلہ کی معاونت کی ہدایت کی جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی اتھارٹی نے معاونت نہ کی تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ہفتے کو دوبارہ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری داخلہ عدالت کو اقدامات سے متعلق آئندہ سماعت پر آگاہ کریں۔

سابق سیکرٹری خزانہ نے بیان حلفی جمع کرادیا

ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس میں سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں نے بیان حلفی جمع کرادیا ہے۔

وقار مسعود نے عدالت کو بتایا کہ سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاءالحق قاسمی کی ماہانہ 15 لاکھ تنخواہ پر میں نے اعتراض اٹھایا اور سمری وزارت خزانہ سے ہوتی ہوئی وزیراعظم سیکرٹریٹ تک پہنچی۔ 

وقار مسعود نے کہا کہ 27 کروڑ روپے کے منظور شدہ پیکج سے کوئی تعلق نہیں اور 270 ملین کی بجائے 54 ملین کا کل پیکج ہے۔ 

سابق سیکرٹری خزانہ نے شبہ ظاہر کیا کہ 270 ملین کے پیکج میں دیگر چیزیں بھی شامل کی گئی ہوں گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فواد حسن فواد کہتے تھے وزیراعظم سیکرٹریٹ کا کوئی لینا دینا نہیں۔ 

عدالت نے سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاءالحق قاسمی کی وزیراعظم سیکریٹریٹ اور وزارت خزانہ کو بھیجی گئی سمری طلب کرلی۔

ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کا فیصلہ محفوظ

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی رقم واپس ہوجاتی ہے تو مقدمہ نیب کو نہ بھجوایا جائے جس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ یہ مقدمہ مزید تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے، ہم نے عطاءالحق قاسمی کو اسی لیے طلب کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کی تقرری کا معاملہ خوفناک ہے، وزیر خزانہ کا نوٹ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کس نے کس کو لکھا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کئی دفعہ کہا ہے اسحاق ڈار مہربانی کرتے اور محبت سے آ جاتے، بہت سی چیزیں واضح ہو جاتیں لیکن وہ آتے ہی نہیں اور ان کی کمر کا درد ہی ختم نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میں عطاءالحق قاسمی سے کبھی نہیں ملا لیکن ان کی کتابیں پڑھی ہیں، بڑے دکھ کی بات ہو گی اگر اتنے بڑے آئیکون جیل جائیں، میری تجویز ہوگی کہ عطاءالحق قاسمی رقم واپس کردیں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیض احمد فیض بھی جیل گئے لیکن آج ہم انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیض احمد فیض تو کسی مقصد کے لیے جیل گئے تھے اور انہوں نے تو یہ مراعات نہیں لی تھیں۔

فریقین کے دلائل کے بعد عدالت نے سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاءالحق قاسمی کی تقرری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس آبدیدہ بھی ہوئے اور کہا کہ بچوں کو تعلیم اور دوائیاں نہیں مل رہیں، کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔

مزید خبریں :